• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان ایک مدت سے میرے دل میں بستا ہے مگر میں اس پر اسرار محبت کی کوئی توجیہ پیش نہیں کر سکتی۔ اس سال بالآخر مجھے بلوچستان کے دل کوئٹہ میں چار دن گزارنے کا موقع مل گیا۔ کوئٹہ کی سڑکیں اور گلیاں، پہاڑ اور وادیاں اور سب سے بڑھ کر کوئٹہ کے حسین باسی، جنکے دل خلوص و محبت سے لبالب ہیں اور جن کے چہرے انکی ذہانت، پختہ فکری اور بالغ نظری کے گواہ ہیں؛ مجھے یقین دلا رہے تھے کہ بلوچستان سے میری محبت بے سبب نہیں تھی۔

کوئٹہ جانے کا یہ موقع اقبال اکادمی کے سربراہ ڈاکٹر عبد الرؤف رفیقی نے فراہم کیا، جنہوں نے نیشنل رحمۃ للعالمین و خاتم النبیین اتھارٹی کے تعمیر ِ نو ٹرسٹ یوتھ کلب کے اشتراک سے انٹرنیشنل اقبال کانفرنس کا اہتمام کیا تھا۔ سترہ نومبر 2025ء کی صبح کوئٹہ ایئر پورٹ پر اترتے ہی تقریب کے میزبان اولیٰ حافظ محمد طاہر، سابق سیکرٹری تعلیم، حکومت بلوچستان کو رفیقی صاحب اور دیگر ساتھیوں کے ہمراہ، گلدستے ہاتھ میں لئے، مہمانوں کے استقبال کیلئے منتظر پایا۔ معلوم ہوا کہ اسلام آباد سے تیس آدمیوں کا قافلہ اسی پرواز پر محو سفر تھا جن میں سے بیشتر دیگر شہروں سے اسلام آباد پہنچے تھے۔ استقبال ہی سے محسوس ہو گیا تھا کہ منتظمین کے نزدیک اس کانفرنس کی کیا اہمیت ہے۔ حافظ محمد طاہر صاحب کی علامہ اقبال سے عقیدت و محبت انکی گفتار سے ہی نہیں، چہرے اور آنکھوں سے بھی ٹپک رہی تھی۔ طعام و قیام کے بہترین انتظامات اور مہمان داری و خدمت گزاری کی اعلیٰ روایات ہم لوگوں کو حیران کئے دے رہی تھیں۔ مگر اصل حیرت تو ابھی منتظر تھی۔

اس کانفرنس کا مقام تقریب ایک نجی تعلیمی ادارے تعمیر نو پبلک کالج کا سمارٹ آڈیٹوریم تھا ۔ یہ ادارہ 1955ء میں کچھ دردمند افراد نے اسلامی اقدار کے مطابق علاقے کے بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کیلئے قائم کیا تھا۔ یہ درسگاہ آج ہزاروں بچوں کی مادر علمی کا روپ دھار چکی ہے اور لاکھوں بچوں کو بہترین تعلیم دیکر کاروبارِ حیات میں اپنا کردار ادا کرنےکیلئے تیار کر چکی ہے۔ تعمیر نو ٹرسٹ بلوچستان کے موجودہ چیئرمین بریگیڈیئر ریٹائرڈ عبدالجلیل خان خود بھی چار سال کی عمر میں اس ادارے سے بطور طالبعلم وابستہ ہوئے تھے۔ انٹرمیڈیٹ تک تعلیم فراہم کرنے والے اس ادارے کے درجن بھر کیمپس قائم ہیں اور اب جلد خواتین کیلئے یونیورسٹی کھولنے کا پروگرام ہے۔ اس ادارے سے فارغ التحصیل طلبہ ملک بھر میں ذمہ دار عہدوں پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ کانفرنس کے میزبان حافظ محمد طاہر اور نیشنل رحمۃ للعالمین و خاتم النبیین اتھارٹی کےڈائریکٹر سہیل بن عزیز بھی اسی ادارے کے سابقہ طالب علم نکلے۔

انٹرنیشنل اقبال کانفرنس کی مرکزی تقریبات تعمیر نو ٹرسٹ کے غزالی بوائز کیمپس میں ہوئیں۔ دوسرے اور تیسرے دن متوازی اجلاس اقبال گرلز کیمپس میں بھی ہوئے جس کی سربراہ محترمہ مہ جبین درانی بہت قابل اور بردبار خاتون ہیں۔ ان دونوں اداروں میں نہ صرف عمارتوں اور سہولیات کی خوبی و زیبائی نے توجہ کھینچی بلکہ انتظامیہ، اساتذہ اور طلبہ کے درمیان حیرت انگیز مفاہمت، باہمی اعتماد اور فرائض و ذمہ داریوں کی احسن تقسیم بھی نظرآئی۔ طلبا و طالبات کی خود اعتمادی،تہذیب و شائستگی، اردو اور انگریزی میں انکی قدرت کلام، پر مغز اور فکر انگیز سوالات، سبھی کچھ متاثر کن تھا۔ کانفرنس میں پاکستان کے علاوہ برطانیہ، بنگلہ دیش، مالدیپ، مصر، مراکو، متحدہ عرب امارات، کویت ،ترکی اور ایران کے مندوب شریک تھے۔ کئی اہم اور بین الاقوامی شہرت کی حامل شخصیات بھی موجود تھیں جو عالمی سطح پر امت مسلمہ کی فلاح و بہبود کیلئے خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ ان میں معروف اسلامی سکالر اور ماہر تعمیرات ڈاکٹر سمیع اللہ ملک، الخبیب فاؤنڈیشن کے سربراہ جناب ندیم خان، کویت یونیورسٹی میں اقبال چیئر قائم کرنے کے خواہشمند رانا اعجاز حسین اور ساؤتھ پنجاب یونیورسٹی کےچانسلر اورایمزایجوکیشن فاؤنڈیشن کے سربراہ الماس ایوب صابرشامل تھے۔ انکے علاوہ پاکستان سے بریگیڈیئر ریٹائرڈ ڈاکٹر وحید الزماں طارق، ڈاکٹر محمد سلیم مظہر، ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم، ڈاکٹر شیر علی، ڈاکٹر رمضان طاہر، ڈاکٹر اقبال شاہد، ڈاکٹر فاروق عادل ،بریگیڈیئر ریٹائرڈ شاہد اصغر، ڈاکٹر غیاث، جناب سہیل بن عزیز، جناب عبداللہ کیہر، ڈاکٹر بابر نسیم آسی اور حنان علی عباسی شامل تھے۔ خاتون مندوب البتہ میں اکیلی تھی لیکن کوئٹہ کی کئی خواتین اساتذہ نے کانفرنس میں نہ صرف مقالے پڑھے، نظامت کی اور کھل کر سوال جواب بھی کیے۔ مجھے مجموعی طور پر کوئٹہ کی خواتین زیادہ بااعتماد اور فطری طور پرخوش باش نظر آئیں۔ ڈاکٹر قندیل بدر ہوں یا جویریہ عبد الحق، مس سمن ہوں یا مسز رحمت رفیقی، سبھی بے انتہا قابل، ذہین اور خوش طبع ہیں۔ اسی طرح وہ نوجوان اساتذہ جو پروٹوکول کی خدمات سرانجام دے رہے تھے، بڑے ذمہ دار اور مہذب تھے۔ بلال اسود، سیف اللہ، زرک خان اور ان کے سبھی ساتھی آدھی آدھی رات تک جاگ کر کام کرتے رہتے اور صبح سویرے ہشاش بشاش ملتے۔ کانفرنس کے مقالات میں امت مسلمہ کی عصری صورتحال اور فکر اقبال کی روشنی میں اس کا حل تلاش کرنے کی تجویز دی گئی۔ پاکستان ، بالخصوص بلوچستان کی صورتحال پر پوری قوم کی دردمندی اور تشویش ظاہر ہوتی رہی اور بلوچستان کے عوام کے حالات بہتر بنانے کی ضرورت پر بار بار زور دیا گیا۔ حافظ محمد طاہر کی اشکبار آنکھوں اور مولانا زید گل خٹک کی رقت بھری دعاؤں نے ماحول کو نورانی اور روحانی بنا دیا تھا۔ اس پر مستزاد، کانفرنس کا اختتامی اجلاس تھا جس میں دنیا کے کئی ممالک سے آنیوالے قاری حضرات نے چار گھنٹے تک مختلف لہجوں میں قرآن کی تلاوت کی ۔ اس محفل کی کیفیت تو بیان سے باہر ہےمگر عجیب بات یہ تھی کہ سننے والوں چند خواتین آخر تک موجود رہیں۔ بلوچستان کو سلام ہے کہ اس محفل قرات میں خواتین کی موجودگی کو نہ صرف قبول کیا بلکہ حوصلہ افزائی بھی کی۔ خدا کرے کہ یہ کانفرنس علمی و ادبی ہی نہیں، بلوچستان کی سیاسی و معاشرتی فضا میں بھی خوش گوار تبدیلی پیدا کرنے کا باعث بنے۔

تازہ ترین