ویسے تو تھل اور روہی کے ریت کے ٹیلوں میں کئی لوگوں نے بیٹھ کے گم شدہ دریا اور معدوم بستیاں تلاش کیں۔مستنصر حسین تارڑ کے ناول’’ بہاؤ‘‘ کا یہی موضوع ہے تاہم شاید اس سیلانی نے عمر کا بڑا حصہ یہاں کے اساطیر اور لوک گیت تلاش کرنے میں صرف نہیں کیا کہ وہ لاہور کا شہزادہ ہے مگر ابھی دو دن پہلے بہاولپور کا ایک شہزادہ جو لوگوں کو چنن پیر کے ٹیلوں کے درمیان ہر مہینے کی ایک جمعرات گزارنے کی تلقین کرتا تھا اس خطے کی ریت،چاندنی اور بانسری کی کوک کے جادو کو اپنی ڈاکومنٹری میں سمونے کی کوشش کرتا تھا بعد کے زمانے میں تو سرائیکی زبان و ادب کے کئی پی ایچ ڈی آئے مگر سرائیکی شاعری کے ارتقا پر اسے پی ایچ ڈی کی رجسٹریشن تب ملی جب پاکستان کی کسی یونیورسٹی میں سرائیکی کی کوئی کلاس ہوتی تھی ۔ جب اس نے ملتان،بہاولپورکے سرکاری اور نجی کتاب خانے کھنگال لئے ،روہی کے ٹیلوں سے کہانیاں سنیں اور وہاں کی تنہائی اور ویرانی کو لوریاں دے کے وہاں کی غنائیت کو اپنے مقالے میں جذب کیا تاہم ایسے ممتحن کے پاس بھیجا گیا جنہوں نےآٹھ برس تک نصراللہ ناصر مرحوم کے مقالے کی رپورٹ نہ بھیجی ۔جب اس کے ممتحن ڈاکٹر نبی بخش بلوچ حیدرآباد سے ملتان پہنچے تو معلوم ہوا کہ نصراللہ خان ناصر کے نگران ڈاکٹر مہر عبدالحق کی طبیعت انتہائی ناساز تھی مگر ان کی ایک بیٹی کی منت سماجت کی گئی کہ صرف پندرہ سے بیس منٹ دے دیں ۔ مہر صاحب کو قصیدہ بردہ سے بہت لگاؤ تھا انہوں نے اردو کے علاوہ سرائیکی میں بھی اس کا ترجمہ کیا تھا انہوں نے وصیت کر رکھی تھی کہ اس کا عربی متن اردو اور سرائیکی کے ساتھ ٹیپ ریکارڈر سے انہیں سنوایا جائے۔تاہم جب ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے اسکالر سے کہا کہ سومرووں کے بارے میں جو کچھ آپ نے لکھا ہے میرے اس پر کچھ تحفظات ہیں،اسی فقرے پر مہر عبدالحق سومرو اٹھ کے بیٹھ گئے ۔
نصراللہ خان ناصر کے ساتھ ڈاکٹر کا سابقہ نمائشی نہیں تھا اس نے ایک طرف تو ریڈیو پاکستان کے ذریعے بے پناہ تخلیقی کام کیا اوراپنے مداحوں میں بھی سرگرمی اور لگن پیدا کی ساتھ ہی ساتھ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے سرائیکی شعبے کے ساتھ آرٹس کالج کی شاندار گیلری اور میوزیم بنایا جہاں مصوری اور مجسمہ سازی اور نقاشی کی کلاسیں شروع ہوئیں۔اس کے شعری مجموعے اجرک کے ساتھ ’’معنویت‘‘کے نام سے اس کے نثری مضامین کا ایک مجموعہ بھی سامنے آیا۔اپنے ایک مضمون میں انہوں نے لکھا’’ عصرِ حاضر کے صوفی کو کسی خانقاہ،کسی گھنے جنگل،ویران کنوئیں کی منڈیر اور انسانی آبادیوں سے دور کسی تکیہ گاہ میں تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ،عہد موجود کا صوفی اپنے خدا سے ہم کلامی کے لئے کسی چلّہ گاہ،مراقبہ ہال اور کسی رقصِ درویش کے دائروں کا محتاج نہیں۔ہمارے صوفی شاعروں کا تخلیقی ابلاغ زرودولت کو ایک مثبت سماجی قدر کی حیثیت دینے کو تیار نہیں‘‘،خواجہ فرید کہتے ہیں:
نہ خواہش مال تے دولت دی
ہے ہک دیداردی بُکھ وے میاں
……
مفت وِکاندی جاندی باندی
مِل ماہی جند اینویں جاندی
(صوفی ازم اور صارف معاشرہ)
ناصر کے پاس عجیب عجیب منصوبے ہوتے تھے ایک مرتبہ اس نے اپنے کالج کی گیلری میں اونٹوں کی تصاویر کی نمائش کرائی ،اونٹوں کے گردنوں کے بال رنگوائے اور انکی اسکے مطابق موتراشی(حجامت) کرائی پھر عرب شیوخ تک یہ تصویریں بھجوائیں، اسکا خیال تھا کہ اگر یہ متمول ساربان مہربان ہو گئے تو بہاولپور سے گلف کی ریاستوں میں کئی اونٹ لاد کے لے جائے جائیں گے اور ساتھ ان کے جسموں پر نقش بنانے والے بہاولپوری فنکار بھی۔
ہماری جامعات کی فضا اکثر کام کرنے والوں کو دل برداشتہ کرتی ہیں مگر ناصر کی زبان سے ہم نے کوئی شکوہ نہیں سنا،البتہ ایک سیمینار میں کسی سے کہہ رہا تھا کہ قوم پرستی اور نسل پرستی میں فرق ہوتا ہے نسل پرستی قومیتی تحریکوں کو بند گلی میں دھکیلتی ہے ۔ اس کی اہلیہ کینسر نے گزشتہ برس چھین لی تھی اس مرتبہ اس کی وفات سے دو دن پہلے انگریزی کے ایک اخبار میں خبر آئی کہ چولستان میں گل گوٹھو کی بیماری آئی ہے صحرا کے سخت جان اونٹ تک بیمار اور نڈھال دیکھے گئے ہیں۔تب اشفاق احمد کے افسانے ’’گڈریا‘‘ کے داؤ جی کے ساتھ اس صحرا میں گم شدہ دریائے ہاکڑہ تلاش کرنے والے کی سلامتی کی فکر ہوئی مگرڈاکٹر روبینہ رفیق کا سسکیوں کے ساتھ فون آیا ہمارا آپ کا ساربان ’’کھوئے ہوؤں ‘‘ میں شامل ہو گیا ہے ۔
انور سین رائے کی نظموں کا ایک مجموعہ ہے ’’کم ہونے والا آدمی اور دوسری نظمیں ‘‘ اس کی اسی نظم کا ایک بند سن لیجئے
کیوں سوچے گا کوئی کم ہونے والے کے بارے میں ؟
لیکن کم ہونے والا سوچتا ہے کبھی کبھی
بند ہوجاتی ہیں اچانک
اس کی آنکھیں
جیسے روشنی کوندی ہو
یا اچانک چھا گیا ہو اندھیرا
تھل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سعید احمد بزدار اپنے مرکزی کتاب خانے میں اس وسیب کے نامور ادیبوں شاعروں سے منسوب کتابوں کے گوشے بنا رہے ہیں مگر کیا کیجئے موت ہم میں سے سبھی کے تعاقب میں ہے آج محمد علی واسطی وفات پا گئے ہیں خدا کیلئے یہ نہ پوچھئے گا کہ محمد علی واسطی کون ؟