• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی ایک طویل، ناہم وار اور کٹھن سفر کا نام ہے، جس میں انسان قدم قدم پر ناگوار تجربات و واقعات، آزمائشوں اور تلخ حقائق سے دوچار ہوتا ہے۔ ابتدا میں ہر شخص زندگی کو اپنے خوابوں، توقّعات اور خوش فہمیوں کی نظر سے دیکھتا ہے اور اُسے لگتا ہے کہ یہ دُنیا انصاف پسند ہے۔ 

یہاں نیکی کا صلہ نیکی اور خلوص کا جواب خلوص سے دیا جاتا ہے، مگر جب وہ عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے، تو اُسے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دُنیا اُس کی سوچ کے برعکس مشکل، پیچیدہ اور پُرخطر ہے اور یہی لمحہ دراصل اُس کے فکری سفر کا آغاز ہوتا ہے، جب وہ خوش فہمی کی آرام دہ، پُرسکون وادی سے نکل کر تُندوتیز اور دشوار حقائق کے میدان میں قدم رکھتا ہے۔

انسان فطری طور پرخواب دیکھنا پسند کرتا ہے اور اپنے اردگرد کی دُنیا کو اپنی خواہشات کی نظر سے دیکھنے کا عادی ہوتا ہے۔ اُسے بچپن ہی سے یہ سکھایا جاتا ہے کہ اگر ہم دوسروں سے بھلائی کریں گے، تو اس کے بدلے دوسرے بھی ہم پر مہربان ہوں گے، مگر جُوں جُوں اُس کی عُمر اور تجربے میں اضافہ ہوتا ہے، تو اُس پر یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ اِس جہان میں ہر اچّھے اور نیک عمل کا فوری انعام نہیں ملتا اور نہ ہی ہر سچّی بات کو جلد پذیرائی ملتی ہے۔ 

اس لمحے اُس کے دماغ سے خوش فہمی کے پردے ہٹنے اور زمینی حقائق کی روشنی میں زندگی کا اصل چہرہ نمایاں ہونے لگتا ہے۔ تاہم، حقیقت پسندی کا مطلب بدگُمانی یا مایوسی نہیں، بلکہ یہ دُنیا جیسی ہے، اُسے ویسے ہی دیکھنے کا ہُنر ہے۔ ایک حقیقت پسند انسان خواب ضرور دیکھتا ہے، مگر کُھلی آنکھوں سے۔ وہ محبّت کرتا ہے، مگر خُود داری کے ساتھ۔ مدد بھی کرتا ہے، مگر اپنا استحصال نہیں ہونے دیتا۔ 

سچ بھی بولتا ہے، لیکن حکمت اور سمجھ داری کے ساتھ۔ یاد رہے، خوش فہمی انسان کو عارضی سکون دیتی ہے، جب کہ حقیقت پسندی اُسے زندگی کی تلاطم خیز موجوں میں مضبوطی سے کھڑارکھتی ہے۔ نیز، حقیقت پسندی ہی یہ سکھاتی ہے کہ دُنیا میں کام یابی کے لیے صرف حُسنِ نیّت ہی کافی نہیں، بلکہ اس کے لیے فہم، صبر اور حکمت و دانائی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

انسان، رشتوں کے معاملے میں اکثر بلکہ عموماً جذباتی ہوتا ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ محبّت اور دوستی ہمیشہ بےغرض ہی ہوتی ہے، مگر حقیقتاً زیادہ تر دُنیاوی تعلقات کسی نہ کسی ضرورت یا مقصد کی بنیاد ہی پر قائم ہوتے ہیں اور یہ ضرورت جذباتی بھی ہو سکتی ہے، نفسیاتی اور مادّی بھی۔ اورجب یہ ضرورت ختم ہوجاتی ہے، تو اکثر محبّتیں، رفاقتیں اور وعدے بھی معدوم ہوجاتے ہیں یا پھر ان کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ 

لہٰذا، ہمیں اِس حقیقت کو قبول کرنا چاہیے کہ ہر شخص کا ہمارے ساتھ تعلق کسی نہ کسی مفاد یا ضرورت کےتحت ہی ہوتا ہے۔ اس حقیقت پسندی سے انسان کا دل ٹوٹنے سے بچ جاتا ہے اور وہ دوسروں سے وابستہ توقّعات کم کر کے خُود کو جذباتی و نفسیاتی طور پر محفوظ رکھ سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ادھورے، وقتی اور عارضی تعلقات ہماری زندگی کا سب سے بڑا بوجھ ہوتے ہیں، جوانسان کی توانائی، وقت اور اعتماد کے زیاں کا سبب بنتے ہیں۔

اِس لیے ضروری ہے کہ ہم کسی بھی رشتے یا تعلق سے جُڑنے سے قبل اُس کے مقصد اور اِخلاص کو اچّھی طرح پرکھ لیں کہ نِیم دلی سے جُڑے رشتے انسان کو مکمل طور پر برباد کر دیتے ہیں۔ اس کے برعکس زندگی کے سفر میں وہی لوگ آپ کے اصل ساتھی ہوتے ہیں، جو مخلص اور بااعتماد ہونے کے ساتھ تعلقات، پائےدار ارادوں سے نبھاتے بھی ہیں۔

دوسری جانب سماجی سطح پر بھی انسان مسلسل کشمکش میں مبتلا رہتا ہے۔ ایک طرف وہ حق اور سچّائی کا پرچار کرنا چاہتا ہے، تو دوسری طرف معاشرہ اُس کے راستے میں دیواریں کھڑی کر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر انسان کی زندگی میں اکثر و بیشتر ایسے لمحات بھی آتے ہیں کہ جب اُسے سچ بولنے پر نقصان اُٹھانا پڑتا ہے، جب کہ خاموش رہنے سے اُس کا ضمیر کُچلا جاتا ہے۔ 

یہی وہ مقام ہے کہ جہاں انسان کو سمجھ داری اور دانائی کے ساتھ فیصلہ کرنا ہوتا ہے، کیوں کہ صرف جذباتی ہونا ہی کافی نہیں، بلکہ سچ کو مؤثر انداز میں پیش کرنا بھی بہت ضروری ہوتا ہے، تاکہ ہماری آواز بھی نہ دبے اور مقصد بھی حاصل ہوجائے۔ ہمیں یہ مان لینا چاہیے، دُنیا ہمیشہ اصولوں کے مطابق نہیں چلتی۔

یہاں طاقت اور مفاد کے کھیل میں سچ اور انصاف اکثر پسِ پُشت ڈال دیے جاتے ہیں، مگر اِس کا مطلب یہ بھی ہرگز نہیں کہ ہم حق سے منہ موڑ لیں۔ ایک دانش مند انسان وہ ہے، جووقت اور موقعے کی مناسبت سے شور شرابے کے بغیر پُختہ دلیل کے ساتھ اپنا حق ثابت کرنا جانتا ہو۔

شرافت اور کردار کی نرمی ایک خُوب صورت صفت ہے، مگر اس کی زیادتی انسان کو کم زور بنا دیتی ہے۔ آج کے زمانے میں جہاں ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے، وہیں بہت زیادہ نرمی اور بےجا قربانی اکثر ہمارے استحصال کا سبب بنتی ہے۔ اگر آپ ہمیشہ دوسروں کی خوشی کے لیے اپنے حقوق سے دست بردار ہوتے رہیں گے، تو دُنیا آپ کو بےوقعت سمجھنے لگے گی۔ 

یاد رہے، شرافت اچّھی چیز ہے، مگر اِس کے ساتھ خودداری اور ہوشیاری بھی لازمی شرط ہے۔ سو، انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی عزّتِ نفس کا خیال رکھے۔ ہرکسی کو خوش کرنے کی کوشش میں اپنی قدر کم نہ کرے۔ بعض اوقات سختی اور خُود داری بھی ضروری ہوتی ہے۔ ظالم کے سامنے خاموش رہنا نیکی نہیں، بلکہ کم زوری ہے۔ انسان کو چاہیے، وہ نرمی و سختی، خاموشی اور قوّتِ گویائی اور شرافت و خُودداری کے درمیان توازن قائم کرے کہ یہی توازن زندگی کو مضبوط بنیادفراہم کرتا ہے۔

زندگی کی ایک بڑی دولت خُود شناسی بھی ہے۔ جو شخص اپنی اہمیت جان لیتا ہے، وہ دوسروں کے دھوکوں، چالاکیوں سے بچ جاتا ہے۔ خُود شناسی ہمیں اپنی شخصیت کے طاقت وَر اور کم زور پہلوؤں، حدود کا شعور دیتی ہے اور ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ کب کس تعلق یا رشتے کو نبھانا اور کب اُسے ترک کرنا ہے۔ کس وقت خاموش رہنا بہتر ہے اورکب ڈٹ کر کھڑے ہونا ضروری ہے۔ ایک باشعور شخص کا ضمیر ہمہ وقت زندہ رہتا ہے اور یہی زندہ ضمیر اُسے اندرونی سکون و اطمینان عطا کرتا ہے۔ 

خواب دیکھنا انسان کی فطرت ہے، مگر اصل دانش یہ ہے کہ انسان خواب اور حقیقت کے مابین توازن قائم کرے۔ یاد رہے، خواب زندگی کو رنگ دیتے ہیں، جب کہ حقیقت اُنہیں سمت سے نوازتی ہے۔ اسی طرح خوش فہمی ہمیں غفلت میں مبتلا کرتی ہے، جب کہ حقیقت پسندی ہمیں ہر آنے والی آزمائش کے لیے آمادہ رکھتی ہے۔ جو لوگ دُنیا کواُس کےاصل رنگ میں دیکھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، وہی ایک کام یاب اور متوازن زندگی گزارتے ہیں۔

قصّہ مختصر، دُنیا میں زندہ رہنے کے لیے صرف نیک نیّت ہونا ہی کافی نہیں، بلکہ فہم، ہوشیاری، خُودداری اور موقع شناسی بھی ضروری عوامل ہیں۔ خواب ضرور دیکھیں، مگر اپنی آنکھیں کُھلی رکھیں۔ محبّت کریں، مگر خُود کو فراموش نہ کریں اور سب سے بڑھ کر سچ بولیں، مگر حکمت کے ساتھ۔ 

یہی وہ ذہنی بےداری ہے کہ جو انسان کو اپنے خوابوں اور حقائق کے درمیان ایک مضبوط پُل تعمیر کرنے میں مدد دیتی ہے۔ یہی شعور انسان کو زندگی کی تلخیوں سے بچاتا، اُس کے ضمیر کو زندہ رکھتا اور اُسے ایک باوقار بقا عطا کرتا ہے۔ (مضمون نگار، پبلک ہیلتھ اسپیشلسٹ اور چیف میڈیکل آفیسر سروسز،اسپتال کراچی ہیں)

سنڈے میگزین سے مزید