• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب ایک بچّہ نیا نیا چلنا سیکھ رہا ہوتا ہے، تو کوئی اُسےکسی بھی سمت قدم بڑھانے سے نہیں روکتا ٹوکتا، بلکہ ہر ہر قدم اُس کی ہمّت و حوصلہ افزائی کی جاتی، اُس کا مان بڑھایا جاتا ہے۔ نتیجتاً، اُس میں وہ خُود اعتمادی پیدا ہوتی ہے، جو بعدازاں اُسے بِلا خوف و خطر ہر قسم کی رُکاوٹیں عبور کرکے آگے سے آگے بڑھتے رہنے پرمائل کرتی ہے، لیکن جوں جوں وہ بڑا ہوتا چلاجاتا ہے، وقت گزرنےکے ساتھ والدین، اساتذہ اور معاشرے کے دیگر طبقات کی جانب سے لگائی جانے والی پابندیوں، قدغنوں کے باعث اُس کی وہی خود اعتمادی بتدریج کم ہوتی چلی جاتی ہے، اُس کے دل و دماغ میں ہار، ناکامی کا خوف پیدا ہونے لگتا ہے۔ جب کہ اس کے برعکس بروس مارٹن کا ماننا ہے کہ ’’انسان نے کوئی بھی شے اس احساس سے بہتر حاصل نہیں کی کہ وہ یہ یقین کرنے لگے کہ مَیں اپنے حالات سے کہیں زیادہ طاقت وَر ہوں۔‘‘

یاد رہے، کام یابی کے لیے شدید خواہش کے بعدیقین اورپھراعتماد کی دولت سے مالامال ہونا ضروری ہے۔ اگر آپ غریب یا معذور ہیں، توتب بھی کوئی مسئلہ نہیں، مگر آپ میں اعتماد کی کمی نہیں ہونی چاہیے، کیوں کہ اگر آپ خُود اعتمادی سے محروم ہیں، تو آپ اپنی بات کسی کو سمجھا سکتے ہیں اور نہ کسی کی بات سمجھ سکتے ہیں، یہاں تک کہ آپ صحیح طرح سے سُن بھی نہیں سکتے، جب کہ خُود اعتمادی کی صُورت آپ دُنیا کا مشکل ترین کام بھی انجام دے سکتے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ کیا خود پراعتماد بڑھایا جا سکتا ہے؟ 

جی ہاں! آپ اپنی خُود اعتمادی کوجتنا چاہیں، بڑھاسکتے ہیں۔ اس مقصد کےلیےآپ کو روزانہ گھر سے نکلنے سے پہلے ایک قدِ آدم آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر دل کی گہرائیوں سے فقط یہ کہنا ہوگا کہ ’’مَیں ایک کام یاب، دُنیا کا طاقت وَرانسان ہوں۔“ یقین مانیے، چند دن بعد ہی آپ اپنے آپ میں نمایاں تبدیلی محسوس کریں گے۔ یاد رہے، جیت کا تصوّر جیت اور شکست کا تصّور شکست کا سبب بنتا ہے۔

انسان اُس وقت تک نہیں ہارتا، جب تک کہ خُود اپنے اندرسےاپنی شکست تسلیم نہ کرلے اور تب تک نہیں جیت سکتا، جب تک کہ اُس کے اپنے دل ودماغ میں کام یابی و کام رانی کا تصّور راسخ نہ ہوجائے۔ اس ضمن میں ہم اپنی مثال پیش کرنا چاہیں گے۔ 

ہم اپنی کالج کی کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے اور ہماری ٹیم ڈویژنل سطح کی زبردست ٹیم تھی۔ ہم کوئی میچ نہیں ہارتے تھے، میدان میں اُترتے ہی تماشائی اعلان کردیتے کہ ’’جیتنے والی ٹیم میدان میں اُتر رہی ہے۔‘‘ لیکن ایک سال ایسا بھی آیا کہ ہم مسلسل پانچ میچز ہار گئے۔ اِس تشویش ناک صُورتِ حال میں ہم نے پوری ٹیم کو اکٹھا کیا اور اپنے کوچ سے مسلسل ناکامیوں کی بابت پوچھا، تو اُنہوں نےجوبات کہی، آج تک دل پر نقش ہے۔ 

”تم لوگ اپنی پہلی شکست کے بعد ہی سے شکستہ دلی سےمیدان میں اُتررہے ہو۔ تمھاری باڈی لینگوئج ہارے ہوئے کھلاڑیوں جیسی ہوتی ہے۔ تم لوگوں کو جیت کا تصوّر لے کر میدان میں اُترنا چاہیے۔ تمہاری آنکھوں میں جیت کی چمک، انگ انگ سے فتح جھلکے گی، تو ہی کامیابی نصیب ہوگی۔‘‘ اور پھر اگلے میچ میں جب ہماری ٹیم جیت کا جذبہ لےکرمیدان میں اُتری، تو ہم نےشان دارکام یابی حاصل کی۔ آرتھر ولیمز نے ایک موقعے پر کہا تھا کہ ’’کام یابی کے حصول کے ضمن میں سب سے بڑی رُکاوٹ یہ ہے کہ لوگوں کو خُود پر اعتماد اور بھروسا نہیں۔

انسانی نفسیات میں ’’مَیں کچھ نہیں کرسکتا‘‘ کی اصطلاح منفی قوّت کی حیثیت رکھتی ہے۔ واضح رہے کہ محنت و مشقّت سے جی چُرانے کی عادت ہی انسان کی سب سےبڑی دشمن ہے۔ یہ کاہلی، کام چوری کی عادت ہی ہے، جو وقت پر اُٹھنے سے روکتی ہے۔ اگر اُٹھ جائیں، تو کام پر نہ جانے کے عُذر تلاش کرنے لگتی ہے۔ کام پر چلے جائیں، تو دل جمعی سے کام نہیں کرنے دیتی۔ گھر آجائیں، تو دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے کی خواہش جاگ اُٹھتی ہے۔

اِسی طرح پڑھنے لگیں، تو نیند آجاتی ہے۔ دفترمیں ہوں، تو کرکٹ کا میدان یاد آتا ہے۔ گراؤنڈ میں ہوں، تو دفتری ذمّےداریاں سراُٹھانےلگتی ہیں۔یعنی ہمیں ناکامی سے دوچار کرنے والوں میں سرِفہرست ہم خود ہی ہیں۔ نسلِ انسانی صرف زندہ رہنے کے لیے وجود میں نہیں آئی، بلکہ اِسے پَھلنے پُھولنے، تعمیر و ترقّی کے لیے تخلیق کیا گیا ہے۔ آج دُنیا میں ایسے ہزاروں کام یاب افراد موجود ہیں کہ جن کی ناکامیوں کی تاریخ گواہ ہے، لیکن انہوں نے ہمّت نہیں ہاری۔ 

ناکامی کوسَر پرسوار کرنے کی بجائے اُس سےسبق سیکھا اور مایوس ہونے کی بجائے آگے بڑھتے گئے۔ بدقسمتی سے ہم شان دار زندگی جینے کی بجائے محض زندہ رہنے ہی کو کافی جانتے ہیں۔ کسی مقصد میں ناکام ہوجائیں، تو فوراً مایوس ہو کر ہاتھ پہ ہاتھ دھر کے بیٹھ جاتے ہیں، حالاں کہ ناکامی، جو ہمارےلیےایک تکلیف دہ اَمر ہے، ہماری زندگی کا ایک لازمی حصّہ ہے۔ہمارے اہداف کی طرف جانے والا رستہ ناکامی ہی کی روش سے ہو کے گزرتا ہے۔

یاد رہے، اس وقت دُنیا میں جتنے بھی کام یاب لوگ ہیں، انہوں نے بھی اپنی زندگی میں بڑی تکلیف دہ ناکامیاں دیکھی ہیں، مگر انہوں نے خُود کو سنبھالا، آہ وبکا میں وقت ضایع کیے بغیر اُٹھے اور نئے سرے سے اپنا سفر شروع کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آج کام یاب ہیں۔ اگر آپ ماضی میں ناکام ہوئے ہیں، تو یاد رکھیں، یہی ناکامی آپ کی کام یابی کا سبب بھی بنے گی۔ ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی کہ اللہ تعالی نے آپ کو زندگی جیسی نعمت سے نواز رکھا ہے۔

سو، اپنی تمام تر توانائیاں مجتمع کر کے اُٹھ کھڑے ہوں۔ یاد رہے، کام یاب ترین لوگوں میں سے کچھ 60 سال کی عُمر میں بھی اپنے مقصد میں کام یاب ہوئے، جیسا کہ کے ایف سی کے بانی کے پاس 65 سال کی عُمر میں صرف سوشل سیکیوریٹی کا 105ڈالرز کا چیک اور نئے فرائیڈ چکن کی ایک ریسیپی تھی۔ یعنی اگر آپ کے پاس محض ایک منفرد، اچھوتا آئیڈیا یا منصوبہ اور اس بات پر یقین ہوکہ آپ سب کچھ کرسکتے ہیں، تو پھر آپ واقعتاً بہت کچھ کر سکتے ہیں۔

1809ء میں پیدا ہونےوالےابراہم لنکن کو امریکا کے سولہویں صدر کے طور پرجانا جاتا ہے۔ وہ اپنی زندگی میں کئی مرتبہ بُری طرح ناکام ہوئے۔ 1832ء میں 23سال کی عُمر میں ملازمت سے محروم ہوگئے۔ تین سال بعد 26 سال کی عُمر میں اُن کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا۔ 

تین سال بعد ایوانِ نمائندگان کا اسپیکر بننے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ 49سال کی عُمر میں سینیٹ کے انتخابات میں شکست اُٹھانی پڑی، لیکن ان تمام ترناکامیوں کے باوجود اُنہوں نے ہمّت نہیں ہاری اور بالآخر1861ء میں 52سال کی عُمرمیں امریکا کے صدر بننے میں کام یاب ہوگئے۔ 

اِسی طرح 1879ء میں پیدا ہونے والا البرٹ آئن اسٹائن، جسے دُنیا کا ذہین ترین انسان تصوّرکیا جاتا ہے، چارسال کی عُمر تک بول نہیں سکتا تھا۔ 1895ء میں 16سال کی عُمر میں سوئس فیڈرل پولی ٹیکنیک کا داخلہ ٹیسٹ پاس نہ کر پایا۔ والد کی وفات کے بعد گریجویشن کے دوران یونی ورسٹی سے نکال دیا گیا۔ 

اِس واقعے کے بعد آئن اسٹائن نے انشورنس سیلز ریپ کی نوکری شروع کی اور گھر گھر جا کے بیمہ پالیسی بیچنا شروع کر دی۔ پھر دو سال بعد اُس نے پیٹنٹ آفس میں اسسٹنٹ ایگزامنر کےطور پر ملازمت اختیار کی۔ اسی دوران فزکس پربھی تحقیق کرتا رہا اور پھر اُس نے اپنی زندگی کے اہم ترین مقالات شایع کیے، یہاں تک کہ بالآخر1921ء میں نوبیل انعام حاصل کرنے میں کام یاب ہوگیا۔

اب ہم بات کرتے ہیں، عصرِحاضر میں دُنیا کے امیرترین افراد میں سے ایک، بِل گیٹس کی۔ 1955ءمیں واشنگٹن میں پیدا ہونےوالے بِل گیٹس نے بچپن ہی سے سخت محنت شروع کردی تھی۔ 17سال کی عُمر میں اپنے بچپن کے دوست، پال ایلن کے ساتھ مل کر ایک کمپنی بنائی، جس کا کام ڈیٹا اکٹھا کر کے انجینئرز کو فراہم کرنا تھا۔ اُنھوں نے ایک ایسے ہارڈویئر کی تیاری کو اپنا نصب العین بنایا کہ جو ڈیٹا پڑھ کر اُسے ٹیپ کرے اور نتیجہ بھی اخذ کرے۔ 

بعدازاں، ایک ڈیوائس بھی تیار کی، مگر وہ تجربہ ناکام ہوگیا، لیکن اُنھوں نے مسلسل کوشش جاری رکھی،جب تک کہ دُنیاکی مشہورکمپنی، مائیکرو سافٹ کا آغاز نہیں کردیا۔ گیبرل گارشیا مارکیز نے 1982ء میں لٹریچرمیں نوبیل پرائز حاصل کیا، حالاں کہ جب اُس نے اپنا پہلا ناول، LA HOJARASCA لکھا اوراُسے ایک مشہور اشاعتی ادارے کو شایع کرنے کے لیے بھیجا، توایڈیٹر نے ایک خط کے ساتھ اُسے گیبرل کو واپس بھیج دیا۔

اُس خط میں لکھا تھا کہ ’’تمہارا مصنّف کے طور پر کوئی مستقبل نہیں ہے۔ بہتر ہے کہ تم کوئی اور کام کرو۔‘‘ والٹ ڈزنی کو جوانی میں ایک اخبار کے ایڈیٹر نے صرف اِس لیے مارا تھا کہ اُس کے پاس کوئی اچھا آئیڈیا نہیں تھا، جب کہ دوبارہ وہ اُس وقت ناکام ہوا، جب 1922ء میں اُس نے اپنی ایک فلم کمپنی کا آغاز کیا۔

پھر اُس نے ایک پرانا کیمرا خریدا اور مختصر دورانیے کی تشہیری فلمزبنانا شروع کردیں، لیکن 1923ءمیں کمپنی ہی دیوالیہ ہوگئی۔ یوں کہیے، یہ بتانا بھی مشکل ہے کہ والٹ اپنی زندگی میں کتنی بار ناکام ہوا، جب تک کہ اُس کا تخلیق کردہ کردار، ’’مِکی ماؤس‘‘ شوبِز کی دُنیا کا معروف ترین کردار نہیں بن گیا۔

سنڈے میگزین سے مزید