• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرا ان سے پہلا تعارف غائبانہ تھا۔ وہ ان دنوں راولپنڈی کے ایک کالج میں مدرس تھے اور ایک اخبار کیلئے کالم بھی لکھا کرتے تھے۔ مجھے ان کا اسلوب ہم عصر کالم نگاروں میں سب سے زیادہ متاثر کن لگتا تھا اور میں بہتر اردو سیکھنے کی غرض سے، ان کا کالم باقاعدگی سے پڑھا کرتا تھا۔ میرے لیے گویا وہ ایک استاد کا درجہ رکھتے تھے، یا یوں کہہ لیجئے وہ میرے استاد ہوں نہ ہوں میں ان کا شاگرد ضرور تھا۔

پھر ایک صبح مجھے انہیں اپنے دفتر میں دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ ان دنوں میں اسلام آباد ایکسائز کا ڈائریکٹر تھا۔ اپنے کیریئر میں یہ پہلا موقع تھا کہ میں ایک محکمے کا سربراہ بنا تھا اور اپنے فیصلوں میں خود مختار تھا۔ چونکہ اسلام آباد نمبر کی رجسٹرڈ گاڑیوں کے بارے میں یہ تاثر عام تھا کہ اچھی سڑکوں پر چلنے کی بدولت وہ بہتر حالت میں ہوتی تھیں، اور ضرورت پڑنے پر نسبتاً بہتر قیمت پر بِک جاتی تھیں، دوسرے صوبوں اور شہروں سے بھی بہت سے لوگ اپنی گاڑیاں اسلام آباد میں رجسٹر کروانا چاہتے تھے۔ اسلام آباد ایکسائز کی گویا ایک خاص اہمیت تھی۔ دوسری طرف طلب زیادہ ہونے کی وجہ سے رشوت ستانی نہ صرف عام تھی بلکہ اس کی شرح بھی خاصی زیادہ تھی۔ ابتدائی دو اڑھائی ماہ تو میں نے اس محکمے کو سمجھنے میں لگائے اور پھر اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر جامع اصلاحات کا وہ سلسلہ شروع کیا کہ جس نے محکمے کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ وہ محکمہ جو کبھی ایجنٹوں، ٹاؤٹوں اور نذرانوں کے حوالے سے پہچانا جاتا تھا، ملک بھر میں تبدیلی کے ایک رول ماڈل کے طور پر سامنے آیا۔ اُن دنوں ہمیں قومی ایوارڈ دینے کی بات بھی کی جاتی رہی۔ بعد ازاں اس وقت کے چیئرمین نیب نے بھی مجھے اپنے افسروں کو بریفنگ دینے کیلئے بلایا کہ کس طور اسلام آباد ایکسائز جیسے محکمے سے کرپشن کو بہت حد تک ختم کر پایا۔ اسی دوران عرفان صدیقی صاحب بھی کسی کام کے سلسلے میں ہمارے دفتر چلے آئے۔ انہوں نے وہاں جو انتظامی معاملات دیکھے، انہیں اس پر انتہائی خوشگوار حیرت ہوئی۔ گفتگو کے دوران وہ حیرت کا برملا اظہار بھی کرتے رہے۔ میں نے انہیں یہ بھی بتایا کہ میں اپنی اردو نثر بہتر بنانے کے لیے انکی تحریروں سے استفادہ کرتا ہوں اور انہیں اپنا استاد گردانتا ہوں۔ وہ ملاقات بہت خوشگوار رہی اور آئندہ کے تعلق کی بنیاد بن گئی۔

کچھ دنوں بعد ایک روز اخبار میں ان کا ایک کالم نظر سے گزرا جس میں انہوں نے اسلام آباد ایکسائز میں پیش آنے والے اپنے تجربے کو قلم بند کیا تھا۔’’ 'عوام آزاری کب تلک ‘‘کے عنوان تلے تحریر کردہ کالم میں پہلے تو انہوں نے یہ سوال اٹھایا کہ کیا ہمارے تھانے، کچہریاں، پٹوار خانے اور سرکاری دفاتر واقعی ناقابل اصلاح ہیں۔ پھر کہنے لگے کہ ان دنوں گاڑیوں کی رجسٹریشن کیلئے اسلام آباد ایکسائز جانے والوں نے کئی ایسی کہانیاں سنائیں کہ دل و دماغ خوشبو سے بھر گئے۔ اپنے تجربے کا بھی یہ کہتے ہوئے حوالہ دیا کہ ’’یہ ایک دلچسپ اور انتہائی دلپذیر کہانی تھی‘‘۔ اور آخر میں دوسروں کو نصیحت کی کہ ہم سے سیکھیں سرکاری دفاتر کو 'عوام آزاری سے کیسے نجات دلائی جائے اور ان جونکوں کا کیا کیا جائے جو بڑی بے دردی اور دیدہ دلیری سے عوام کا لہو چوس رہی تھیں۔ ہماری کارکردگی پر لکھا ہوا انکا یہ کالم میرے لیے بہت اعزاز کی بات تھی۔ میں نے وہ کالم فریم کروا کے رکھ لیا اور وہ آج بھی میری حوصلہ افزائی کا باعث بنتا ہے۔ صدیقی صاحب اپنے وقت کے بہت بڑے لکھاری تھے اور بڑی پراثر تحریریں تخلیق کرتے تھے۔ اپنی تحریروں میں مگر غیر جانبداری سے کام نہ لیتے تھے۔ وہ جن کے حامی تھے، اپنا زورِ قلم ان کے حق میں استعمال کرتے تھے۔ جس کسی سے اختلاف رکھتے تھے، اس کے کسی عمل میں کوئی خوبی نہ دیکھتے تھے۔ ایک روز جی سیکٹر میں ان کے گھر حاضر ہوا تو یہ موضوع بھی زیرِ بحث آیا۔ میں نے انتہائی ادب سے گزارش کی کہ خدا نے انہیں تحریر و تقریر کی اس قدر بڑی نعمتوں سے نوازا ہے اور وہ اپنے تمام پڑھنے والوں کے لیے انتہائی قابلِ تعظیم ہیں، انہیں اپنی تحریریں اپنے سیاسی جھکاؤ سے بالاتر ہو کر لکھنی چاہئیں۔ صدیقی صاحب نے اس استدلال کو یکسر مسترد کر دیا اور کہا وہ جسے صحیح سمجھتے ہیں اس کی کھل کر حمایت کرتے ہیں اور جسے غلط خیال کرتے ہیں، اس کی کھل کر مخالفت کرتے ہیں۔ پھر ایک روز انہیں ایک انتہائی بودے مقدمے میں شرمناک انداز میں گرفتار کر لیا گیا۔ ہتھکڑیوں میں جکڑا، قلم تھامے ہوئے ان کا ہاتھ اس دور کی زبان و بیان پر پابندی کا ایک استعارہ بن گیا۔ قید و بند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا تو مخالفین کیلئے ان کے لہجے کی تلخی مزید بڑھ گئی۔

وفات سے پہلے میرا ان سے آخری رابطہ چند دن قبل اس وقت ہوا جب میں نے برادرم سہیل وڑائچ کی حوصلہ افزائی کرنے پر کسی حد تک باقاعدگی سے روزنامہ جنگ کیلئے کالم لکھنے شروع کیے۔ بہاولپور کے آخری نواب کی صاحبزادی پر ایک کالم شائع ہوا تو صدیقی صاحب کا فون آگیا۔ کہنے لگے کالم کے مندرجات پر گفتگو کرنے سے پہلے آپ کے اسلوب پر بات کیے لیتے ہیں، اور وہ یہ کہ آپ کا اسلوب انتہائی پختہ اور متاثر کن ہے۔ میرے لیے ان جیسے نثرنگار کے یہ الفاظ ایک سند کا درجہ رکھتے تھے۔ جہاں تک بہاولپور کی شہزادی کی کسمپرسی کا تعلق تھا، صدیقی صاحب کہنے لگے، میں ابھی بیرونِ ملک جا رہا ہوں، واپس آؤں گا تو مناسب موقع دیکھ کر بڑے اور چھوٹے دونوں میاں صاحبان کی توجہ اس طرف مبذول کرواؤں گا۔ فون بند کرنے سے پہلے تاکید کی کہ واپسی پر ملاقات ہونی چاہیے۔ خدا غریقِ رحمت کرے، ملاقات ہم سے طے تھی، اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے ہیں!

تازہ ترین