• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان سے پاکستان میں ہونیوالی دہشت گردی کا مسئلہ کسی طرح حل ہونے میں نہیں آرہا۔ دوست ملکوں کی جانب سے ثالثی کی کوششیں بھی اب تک بے نتیجہ رہی ہیں۔ قطر اور ترکی کے زیراہتمام دوحہ اور استنبول میں ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کے بعد سے بات چیت کا سلسلہ بند ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے مسئلے کے حل کیلئے اپنا جو وزارتی وفد پاکستان بھیجنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا ، حالات کی ناسازگاری کے باعث اس کا معاملہ بھی تعطل کا شکار ہے۔ ایران اور روس کی جانب سے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرانے کی پیشکش کی گئی ہے اور بعض اطلاعات کے مطابق سعودی عرب بھی اس کیلئے کوشاں ہے لیکن دہشت گردی کی نئی وارداتیں ثالثی کے عمل کو آگے بڑھانے میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ سرحدوں کی بندش نے باہمی تجارت بند کر رکھی ہے جسکے سبب دونوں ملکوں کو بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔ پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے ہفتے کے روزپریس کانفرنس میں انکشاف کیا ہے کہ دوحہ مذاکرات سے پہلے پاکستان افغانستان کے اندر کارروائی کا فیصلہ کرچکا تھا اور اس کی مکمل تیاری کی جاچکی تھی لیکن قطر کے علم میں یہ بات آئی تواس نے ثالثی کی پیشکش کی جسکے بعد اس رات افغانستان کے اندر جو کارروائی ہونیوالی تھی وہ روک دی گئی لیکن قطر کی ثالثی کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل سکا جس پر اب وہ خود اپ سیٹ ہیں ۔ اسلام آباد میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہاکہ افغان طالبان کو اقتدار میں آنے کے بعد ذمے دارانہ طرزعمل اپنانا چاہیے تھا لیکن جب سے انکی حکومت آئی ہے ہمارے چار ہزار افسروں اور جوانوں کی میتیں اٹھ چکی ہیں،بیس ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں تو ہم کس طرح اپنی آنکھیں بند رکھ سکتے ہیں جبکہ دہشت گردی کے واقعات کم نہیں ہو رہے بلکہ بڑھتے جا رہے ہیں۔ وزیر خارجہ نے طالبان حکمرانوں کے حوالے سے واضح کیا کہ’’ یہ انکی خام خیالی ہے کہ ہم اس مسئلے کو حل نہیں کر سکتے۔ اللہ نے پاکستان کو قوت دی ہے ہم اس پر کارروائی کر سکتے ہیں اور چیزوں کو بالکل ٹھیک کر سکتے ہیں۔‘‘ بلاشبہ ہزاروں افسروں اور جوانوں کا افغانستان سے جاری دہشت گردی کا نشانہ بن جانا اور افغان حکومت کا اپنے ملک کی سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال ہونے سے روکنے میں ناکام رہنا بلکہ واضح شواہد کے مطابق دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں مہیا کیے رکھنا اور عملاً پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں سہولت کار کا کردار ادا کرنا، فی الحقیقت ایک اشتعال انگیز رویہ ہے اور ردعمل کی نفسیات کا تقاضا ایسی صورت میں یہی ہوسکتا ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے لیکن ہوش مندی اور دور اندیشی سے کام لیا جائے تو یہ سوچنا ضروری ہے کہ کیا مسئلے کو طاقت سے حل کرنے کی کوشش کسی پائیدار امن کا ذریعہ بنے گی یا دونوں ملکوں کے درمیان معمول کے تعلقات قائم ہونے کے امکانات کو ہمیشہ کیلئے ختم کرکے نسل درنسل جاری رہنے والی دشمنی کا باعث بن جائے گی۔ یہی وہ سوچ ہے جس کا اظہار اس سلسلہ گفتگو میں وزیر خارجہ نے فوجی کارروائی کے ذریعے مسئلے کے حل کاذکر کرنے کا بعد ان الفاظ میں کیا کہ’’ لیکن یہ بھی ٹھیک نہیں کہ ہم اپنے بھائی کو اس کے گھرمیں گھس کر ماریں۔ پاکستان چاہتا ہے افغانستان کے لوگ ترقی کریں اور انکا ملک خوشحال ہو۔‘‘ تاہم پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ افغانستان کے حوالے سے اپنے اصولی مؤقف پر نہ صرف دوست ممالک، عالم عرب ، مسلم دنیا ، بڑی طاقتوں بلکہ پوری عالمی رائے عامہ کو اعتماد میں لے اور اگر کہیں غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں تو انہیں دور کرے۔ وزیر خارجہ اسحق ڈار نے مختلف ملکوں کے حالیہ دوروں میں اس امر کی خاطر خواہ کوشش کی ہے۔ان کے بقول انہوں نے یورپی حکام سے ملاقاتوں میں غلط فہمیوں کو دور کیا اور یورپی یونین کو آگاہ کیا کہ ہم افغانستان میں امن چاہتے ہیں۔ انہوں نے نیٹو کے ذمے داروں سے بھی ملاقاتیں کیں اور پریس کانفرنس میں بتایا کہ پاکستان نیٹو کے ساتھ کام کرتا رہا ہے۔ ا س تناظر میں ان کا یہ کہنا بہت معنی خیز اور افغان حکمرانوں کے لیے قابل غور ہے کہ ’ ’وہ وقت دور نہیں جب دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے مسلمان اور غیر مسلم ممالک اکھٹے ہو کر کام کریں گے تو کیا بہتر نہیں کہ ہم اپنے خطے کو پر امن کر لیں۔‘‘ کابل کی عبوری حکومت کے ذمے داروں کو اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ دنیا بھر میں افغانستان کے بارے میں دہشت گردی کا گڑھ ہونے کا تاثر تیزی سے عام ہو رہا ہے۔ وائٹ ہاؤس پر ایک افغان باشندے کی کارروائی اور تاجکستان میں افغانستان سے چینی شہریوں کو ڈرون حملے کا نشانہ بنائے جانے کے تازہ واقعات نے اس تاثر کو بڑی تقویت دی ہے۔ حالات اسی رخ پر آگے بڑھتے رہے تو یہ ناممکن نہیں کہ افغانستان کو واقعتاً پوری مہذب دنیا کی مشترکہ کارروائی کا سامنا کرنا پڑے جبکہ پائیدار امن وامان خود افغانستان کی بقا و سلامتی اور ترقی و استحکام کیلئے ناگزیر ہے۔ لہٰذا یہ بات عین افغانستان کے مفاد کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان سمیت کسی بھی ملک میں دہشت گردی کیلئے استعمال نہ ہونے دے۔جہاں تک پاکستان کی جانب سے افغان سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی کے خاتمے کیلئے فوجی کارروائی کے آپشن کا تعلق ہے تو یہ بات واضح ہے کہ اس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان مستقل دشمنی قائم ہوجائے گی اور پائیدار امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ بھارت جو پہلے ہی پاک افغان تعلقات کی ابتری سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے ، اسے اس حوالے سے کئی گنا بہتر مواقع میسر آجائیں گے۔لہٰذا کابل اور اسلام آباد دونوں کے دائمی مفادات کا تقاضا ہے کہ دوست ملکوں کی ثالثی کی پیش کشوں کی قدر کریں اور اپنے اختلافات کا تصفیہ بندوق کے بجائے نیک نیتی کیساتھ کی جانے والی بات چیت سے کریں۔

تازہ ترین