ہم کارونجھر کے پر آسیب پہاڑی سلسلوں کے پاس سے گزرتے ہوئے کاسبو پہنچے تھے۔ یہ تھرپارکر کی پراسرار سی ایک بستی ہے جس میں مور ناچتے ہیں اور بھگت گاتے ہیں۔ اس کو موروں کی بستی بھی کہتے ہیں۔ اس کی دوپہر میں اتنا سناٹا ہے کہ دوسری طرف گزرتی ہوئی گائے کی دھب دھب یہاں راما پیر مندر کے اندر سنائی دیتی ہے۔ یہ صدیوں پرانا مندر ہے۔ اس مندر میں وقت رکا ہوا ہے مگر زمانہ کسی طرح گزرتا چلا جا رہا ہے۔ چارصدیوں کی منتیں مرادیں اور آنسو اس مندر کی اینٹوں نے جذب کئے ہوئے ہیں۔ یہاں بیٹھے گہری جھریوں والے بوڑھے بھگتوں کو دیکھ کر لگتا ہے یہ زمین سے آگے ہوں گے۔ یا جس دن مندر بنا تھا اس دن انہیں بھی تھر کی مٹی سے بنا دیا گیا ہوگا۔ تب سے اب تک یہاں بیٹھ کر فطرت سے کلام پیدا کر رہے ہیں۔ سورج زوال کے وقت میں داخل ہوتا ہے تو بوڑھے بھگت صحن میں دائرہ بناکر بیٹھ جاتے ہیں۔ تار ستار چھیڑتے ہیں، گھنٹیاں بجاتے ہیں اور لرزتی ہوئی کڑک آواز میں بھجن گاتے ہیں۔ آنکھیں بند کرکے سنیں تو لگتا ہے جیسے گلے میں گھنٹیاں اور پاؤں میں جھانجر باندھے کچھ اونٹ صحرا میں مناسب رفتار سے چلے جا رہے ہیں۔ پجاری مندر کا بھاری گھنٹا بجاتا ہے تو احاطے میں دانہ چگتے مور یکدم ٹھٹک جاتے ہیں۔ پروں کو تھرتھراتے ہوئے اپنی گونج دار پکار فضا میں چھوڑ دیتے ہیں۔ چپ ہوتے ہیں تو دیر تک ان کی آواز کسی بھولی بسری دعا کی طرح مندر میں گونجتی ہے اور گونجتی چلی جاتی ہے۔ صدیوں پرانے درخت روہیڑو اور نیم کی جڑوں میں دبی پرانی منتیں اور مرادیں سرسرانے لگتی ہیں۔ کبوتر گردنیں اکڑا کر حیرت سے یہاں وہاں دیکھنے لگتے ہیں کہ سرسراہٹ کہاں سے آرہی ہے، یہ کس نے پکارا ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ نیم کا درخت جب کسی بات کا گواہ بنتا ہے تواسکی چھال پر ایک نیا نشان ابھرآتا ہے۔مندر میں کھڑےنیم کایہ گھنادرخت گہرے نشانوں سے بھرا ہوا ہے۔ کئی نسلوں کا یہ خاموش گواہ ہے۔ تھر کے سینے پر جب سرحد کھینچی جارہی تھی تب بھی یہ درخت موجود تھا۔ یہ چپ چاپ سب دیکھنے پر مجبور تھا۔ اس کی چھال پر سب سے گہرا نشان اسی دن کا ہے۔ کتنے راز ہیں جو اس نیم کی چھال میں بند ہیں۔ کتنے خواب ہیں جو اس کی شاخوں پرجھول رہے ہیں۔ کتنی کہانیاں ہیں جو یہاں پڑے پڑے دم توڑ گئی ہیں۔ مندر پہ سایہ کرنے والے نیم کے پیڑ کو کچھ دیرمسلسل دیکھو تو وہ سارے خواب شور کرنے لگتے ہیں جو پچھلی نسل کی مائیں یہاں رکھ گئی تھیں۔ نظر ہٹاؤ تو یکدم سناٹا ہو جاتا ہے۔
نارنجی پگڑیوں والے سادھو بھگت کبیر کے بھجن گاتے رہتے ہیں اور نئے آنے والے حلقہ بناکرجھومتے رہتے ہیں۔ اچانک نیم کے پیڑ سے ایک ہوشیار سی گلہری پھرتی کیساتھ اترتی ہے اور بھجن پر جھومتے ہوئے کسی اجنبی شخص کے پاس آکر رک جاتی ہے۔ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسکے نین نقش پرکھتی ہے اور لپک کر واپس نیم پر چڑھ جاتی ہے۔ نیم کو خدا جانے ایسا کیا بتاتی ہے کہ ٹھنڈی سی ہوا کی سنسناہٹ کے ساتھ نیم کے پتے سرسرانے لگتے ہیں۔ بھگت خاموش ہو جاتے ہیں۔ ایک پل کیلئے ایسے لگتا ہے جیسے نیم کے پیڑ میں رد کی ہوئی دعائیں سانس لے رہی ہوں۔ قبول ہونے کی ایک کوشش اور کررہی ہوں۔نارنجی پگڑی والے پجاری کے اشارے پر بھگت پھر سے تار کھینچتا ہے،سادھودیپ جلاتا ہے پجاری پرساد بانٹتا ہے۔ اگر بتی کی مہک سندور اور مٹی کے ساتھ ملکر ہوا میں گھل جاتی ہے۔ رنگ برنگے گھاگروں میں کچھ لڑکیاں پلوسنبھالے مندر کی سیڑھیاں چڑھنے لگتی ہیں۔ بڑی آنکھوں والی پجارن مندر کا گھنٹہ بجاتی ہے تو مور ناچنے لگتے ہیں۔ کبوتر غٹرغوں غٹرغوں گانے لگتے ہیں اورہوا میں کبیر کے بول گونجنے لگتے ہیں۔
جو سکھ پاؤ نام بھجن میں
سو سکھ ناہیں امیری میں
بھلا برا سب کو سن لیجیے
کر گزران غریبی میں
آخر یہ تن خاک ملے گا
کہاں پھرتا مغروری میں
من لاگو میرو یار فقیری میں
سب بھجن میں مگن ہو جاتے ہیں تورنگ برنگے گھاگروں والی لڑکیاں اپنی کہانی چپکے سے دیوی کے قدموں میں رکھ دیتی ہیں۔ لڑکیاں دیر تک دیوی کودیکھتی رہتی ہیں۔دیوی بولتی نہیں ہے۔ دیوی کی یہی اچھی بات ہے کہ بولتی نہیں ہے۔کہانی سن کر ہنستی بھی نہیں ہے۔ جو ہوچکا اس پرشرم نہیں دلاتی۔جو ہو رہا ہے اس پر جج نہیں کرتی۔ جو کہانی سن لے اسے اپنے تک رکھتی ہے۔خاموشی بڑی سی ایک گنجائش کانام ہے دوستو۔ بہت بولنے والوں کو کوئی کہانی نہیں سناتا۔سناتا ہے تو ادھوری سناتا ہے۔ سب سے زیادہ کہانیاں دیوی دیوتاؤں کوسنائی گئی ہیں۔تنہائیوں کو سنائی گئی ہیں۔ تکیوں اور آئینوں کوسنائی گئی ہیں۔یا پھران ہستیوں کو سنائی گئی ہیں جو گویائی سے محروم ہونے کےبعد مزاروں میں سوگئی ہیں۔ وہ ابھی جاگ کر بولنے لگ جائیں تولوگ دل کا حال سنانا چھوڑ دیں گے۔ آپ کا مذہب جو بھی ہو،گوتم بدھ آپکو کھینچتا ہے۔کیوں؟ اسکے پاس متانت بھری ایک خاموشی ہے۔کتنے لوگ ہیں جواپنی تھکن اتارنے کیلئے فقط ایک بار کسی کے گلے لگنا چاہتے ہیں، مگر نہیں لگ سکتے۔لوگ بول پڑتے ہیں۔جولوگ اپنے والدین سے گلے نہیں مل سکے،اب وہ انکی قبروں سے دیر تک لپٹ کرباتیں کرتے ہیں۔ کیونکہ اب وہ نہیں بولتے۔اب وہ صرف سن سکتے ہیں،تربیت نہیں کرسکتے۔ بات یہ ہے کہ سب کہانی سناناچاہتے ہیں۔کہانی سننا کوئی نہیں چاہتا۔کہانیاں اسی کے پاس ہوتی ہیں جو کہانی سن سکتا ہو۔جوسن نہیں سکتا اسکے پاس میری طرح باتیں ہوتی ہیں اورفقط باتیں ہوتی ہیں۔
خیر! لڑکیاں دیرتک دیوی کودیکھتی ہیں۔دیوی جواب نہیں دیتی۔لڑکیاں امید کی ایک کرن پلو میں ٹانک کر لوٹ جاتی ہیں۔ایک مٹھیارن کی منتر پڑھتی ہوئی بڑی سی آنکھیں مندرکی سیڑھیوں سے پلٹ کرذرا سادیکھتی ہیں تومندر میں دو چراغ اورجل اٹھتے ہیں۔آخری بار مندر کے دروازے سے نیم مسکرانہ دیکھتی ہیں تو من مندر میں گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں۔پس منظر میں کوئی نیا بھجن سنائی دینے لگتا ہے۔پیڑوں میں دعائیں سرسرانے لگتی ہیں۔ مور اپنے پر کھولنے لگتے ہیں۔دولرزتی ہوئی چراغ سی آنکھیں کاسبو کی بھیدبھری گلیوں میں گم ہوجاتی ہیں۔نیم کی چھال میں ہلکاسا ایک نشان اور ابھر آتا ہے۔!!!