• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوام متحدہ کے موجودہ سیکرٹری جنرل دسمبر کے اواخر میں ریٹائر ہو جائیں گے۔ کچھ خبروں کے مطابق نوبل انعام یافتہ مگر اپنے ملک میں جیل جانیوالے بنگلہ دیش کے صدر یا چیف ایڈمنسٹریٹر ڈاکٹر محمد یونس کا نام اس منصب کیلئے لیا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے کسی سطح پر ملائیشیا کے ڈاکٹر مہاتیر محمد کا نام بھی زیر غور رہا ایک سو سال عمر پانے کے باوجود۔ بہت پہلے جب جنرل مشرف پر امریکہ بہت ہی مہربان تھا اور جنرل صاحب میاں نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو کو مستقل جلا وطن رکھنے کے آرزو مند تھے تب محترمہ کو انکے عالمی امیج، قوت گفتار اور ماہر سفارتکاری کے باعث اس منصب کی پیشکش ہوئی، ان کے قریبی حلقے جانتے ہیں کہ انہوں نے اس پیشکش پر شکریہ ادا کیا مگر اسے قبول کرنے سے معذرت کر لی۔ اب جیسے بعض لوگوں کے خیال میں ہماری زمین کو ایک بیل نے اپنے سینگوں پر اٹھا رکھا اسی طرح خیال کیا جاتا رہا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو پاور رکھنے والے پانچ ملکوں میں سے امریکہ کی رائے فیصلہ کن ہے۔

اب کچھ برسوں سے مستقل اراکین کو پانچ سے بڑھا کے آٹھ کرنے کی تجویز بھی کافی پرزورہے البتہ بھارت اور جاپان کے علاوہ تیسرے ملک کا نام کچھ کچھ اشاروں میں لیا جاتا رہا ہے انڈونیشیا، ترکیہ یا جرمنی۔ اب ظاہر ہے کہ پاکستان کا موقف یہی رہا ہے کہ کشمیر کے لوگوں کو استصواب رائے کا حق دے دیا جائے پھر بے شک بھارت اس صف میں شامل ہو جائے مگریہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ چین بھی نہیں چاہتا کہ بھارت سلامتی کونسل کامستقل رکن بنے جاپان بھی چین کا حریف ہے معاشی میدان میں،ٹیکنالوجی میں بلکہ کلچرل تاریخ اور اساطیری قصے بھی انہیں ایک دوسرے کا حریف بناتےہیں۔ جب سے محترمہ حسینہ واجد کا تختہ الٹا گیا ہے اور وہ بھارت میں پناہ گزیں ہوئی ہیں، پاکستان اور بنگلہ دیش میں قربت بڑھی ہے ،ایک خبر کے مطابق پاکستانی چاول کے لئے بنگلہ دیش سے بھاری آرڈر آیا ہے تعلیمی اور عسکری میدان میں بھی روابط بڑھ رہے ہیں مگر بنگال کے مزاج شناس کہتے ہیں کہ وہاں کی ندیاں صبح کے وقت جس رخ پر بہتی ہیں شام کو اس کے مخالف سمت میں موجزن ہوتی ہیں اس لئےہمیں اپنےمسائل خود حل کرنے کیلئے خود اعتماد ہونا ہوگا۔

اس میں شک نہیں کہ روس کے صدر دو دن کے بعد بھارت کا دورہ کر رہے ہیں،اب وہ زمانہ گیا کہ روس بھارت عسکری تعلقات پر ہم تڑپ اٹھتے تھے اب ایک تو چینی ٹیکنالوجی کے ساتھ پاکستان کی عسکری قوت نے بھارت کی منہ زور قوت کے گھمنڈ کو ہلایا ضرور ہے کہ امریکہ اور فرانس سے ان جہازوں کے گرنے کی تصدیق ہو رہی ہے جنہیں بھارت چھپاتا ہے ۔اب بھارت کی پسپائی کا ذکر ہو رہا ہے ،محترمہ بے نظیر کا تذکرہ ہوا تو آکسفورڈ یونیورسٹی کے مباحثے کا ذکر بھی ہو جائے ہم سب جانتے ہیں کہ بی بی اعلیٰ درجے کی ڈیبیٹر تھیں اور اس یونیورسٹی سے ان کی شہرت ہوئی اب گزشتہ ہفتے اسی فورم پر ایک قرارداد بحث کے لئے پیش ہوئی : یہ ایوان خیال کرتا ہے کہ بھارت عسکری پالیسی کو پا کستان کے حوالے عوامی حکمت عملی بنا کے پیش کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہاں کے طالب علموں نے رائے دینی ہوتی ہے مگر اس کی تشہیر عالمی سطح پر ہوتی ہے ۔ یونیورسٹی نے اس مباحثے کے حوالے سے دو نوں ملکوں کو اعتماد میں لیا پہلے بھارت کی طرف سےڈاکٹرسبرامنیم سوامی، ایک ریٹائرڈ جنرل اور ایک سیاست دان سچن پائلٹ کے نام دئیے گئے پاکستان کی طرف سے محترمہ حنا ربانی کھر ،سابق سفارت کار محمد فیصل اور ایک ریٹائرڈ جنرل کا نام دیا گیا،پھر خبر آئی کہ بھارت پیچھے ہٹ گیا پھر معاملات آگے پیچھے ہوتے رہے بالآخر یہ مباحثہ ہوا اور یہاں بھی بھارتی موقف کو شکست ہوئی ۔حالانکہ اس یونیورسٹی میں پڑھنے والے زیادہ طالب علموں کا تعلق بھارت سے ہے اور پھر میڈیا،فلم ،تھیٹر اور رقص کے سبب بھارت کی ایک ہوا باندھی گئی ہے اور ہمیں جہادی،تنگ نظر، چار چار شادیاں کرکے آبادی میں بے ہنگم اضافہ کرنے والی قوم کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے ۔معاشی خود کفالت ابھی ہم سے فاصلے پر ہے ،ہماری پارلیمنٹ، عدلیہ اور الیکشن کمیشن کو خود اپنے فیصلوں سے اپنی ساکھ بنانی ہے ۔جنرل مشرف کے زمانے میں چرچا ہوا تھا کہ ترکیہ کی طرح پاکستان کے بھی چوبیس صوبے بنائے جائیں گے،یہ باتیں اب بھی ہو رہی ہیں کوئی ہرج نہیں نئے صوبے بننے چاہئیں تاہم سندھ ،بلوچستان اور خیبر پختون خوا سے پہلے پنجاب دل بڑا کرے ،اس کے تین صوبے بن جائیں،ممکن ہے تینوں میں جھگڑا اس بات پر ہو کہ مریم نواز کہاں کی وزیر اعلیٰ ہوں۔ زیادہ حساس مسئلہ سندھ کا ہو جاتا ہے وہاں بھی پرانےکراچی کو اسلام آباد کی طرح دارالحکومت بنایا جا سکتا ہے۔بلوچستان میں تو پشتون اور بلوچ تقسیم واضح ہے ۔ اگر ہم عمران خان کو بھی دنیاوی اور روحانی وسیلوں سے مکالمے پر آمادہ کر لیں تو کافی الجھنیں دور ہو سکتی ہیں،ایک وقت تھا ہمارے پیارےخان مردِ آہن کی بات انہماک سے سنتے تھے۔ اسی طرح خیال آیا کہ ایک وقت میں معلوم ہوا تھا کہ بنگلہ دیش نے مذہبیت کے غلبے اورمچھلی سے رغبت کے باوجود اپنی آبادی کی شرح نمو پر قابو پایا تھا ان سے ڈاکٹر خواجہ محمد علقمہ ،اظہار الحق ،طارق محمود یا ڈاکٹر فاطمہ حسن کے ذریعے اس حوالے سے راز کی باتیں معلوم کی جا سکتی ہیں۔ ابھی یکم دسمبر ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر کا یوم وفات تھا،وہی جو ایم اے او کالج امرتسر کے پرنسپل تھے ، فیض کے ہم زلف تھے ۔ ان کے دو شعر آپ بھی سن لیں:

حضورِ یار بھی آنسو نکل ہی آتے ہیں

کچھ اختلاف کے پہلونکل ہی آتے ہیں

……

ہزار ہم سخنی ہو، ہزار ہم نظری

مقامِ جنبشِ ابرو نکل ہی آتے ہیں

تازہ ترین