• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارتی وزیردفاع کا حالیہ بیان کہ ’’ایک دن سندھ بھارت کا حصہ بن جائے گا‘‘ نہ صرف سفارتی بدتہذیبی ہے بلکہ خطے کی تاریخ اور جغرافیے سے مکمل لاعلمی بھی ظاہر کرتا ہے۔ سندھ کے عوام اور ایک پاکستانی کے طور پر یہ بیان ہمیں کئی زاویوں سے سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ بھارت کی اس طرح کی باتیں اکثر داخلی سیاست میں سخت گیر حلقوں کو خوش کرنے اور اصل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے کی جاتی ہیں۔ مگر اس بار نشانہ سندھ بنا، جو کسی صورت ایسی بے بنیاد سوچ کو قبول نہیں کر سکتا۔

سندھ صدیوں پر محیط ایک الگ تہذیب، منفرد ثقافت اور مضبوط تاریخی شعور رکھتا ہے۔ موہنجو دڑو کی قدیم تہذیب سے لے کر شاہ لطیف کی روحانی روایت تک، سندھ ہمیشہ اپنی سرزمین اور شناخت سے جڑا رہا ہے۔ بھارت کے سیاسی بیانات اس حقیقت کو نہیں بدل سکتے۔ سندھ ایک زندہ، باشعور اور سیاسی طور پر سمجھ دار خطہ ہے، جو جانتا ہے کہ اس کی بقا پاکستان کے ساتھ وابستہ ہے۔پاکستان کی وفاقی اکائیوں میں سندھ نے ہمیشہ مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے بھی اہلِ سندھ نے تحریک پاکستان میں حصہ ڈالا اور قیام کے بعد ملک کی مضبوطی کے لیے ہر مشکل گھڑی میں ساتھ کھڑے رہے۔ سندھ کے لوگوں کا بنیادی سیاسی شعور یہی ہے کہ پاکستان ہی ان کی ریاست ہے اور اس کی حفاظت ان کا فرض ہے۔ اس لیے بیرونی طاقت کا سندھ کو پاکستان سے کاٹ دینے کا خواب صرف خام خیالی ہے۔بھارت اچھی طرح جانتا ہے کہ سندھ میں کوئی قابل ذکر علیحدگی پسند تحریک موجود نہیں۔ مسائل ضرور ہیں، حقوق کی بات بھی ہوتی ہے مگر یہ سب آئینی دائرے میں رہ کر حل کرنے کی سوچ رکھتا ہے۔ سندھ کے لوگ کبھی اپنی دھرتی یا شناخت کسی بیرونی ایجنڈے کے ہاتھ نہیں بیچتے۔ ان کا سورج پاکستان ہی کے افق پر طلوع ہوتا ہے۔بھارتی بیان پر سب سے زیادہ ردِ عمل سندھی نوجوان نے دیا ہےوہ نوجوان جو تعلیم، ٹیکنالوجی اور سماجی شعور میں آگے بڑھ رہا ہے۔ وہ بخوبی سمجھتا ہے کہ بھارت کا مقصد خطے میں کشیدگی بڑھانا اور پاکستان کے خلاف نفسیاتی دباؤ پیدا کرنا ہے۔ مگر اس طرح کے بیانات سندھیوں میں خوف نہیں بلکہ پاکستان کی وحدت کے لیے مزید عزم پیدا کرتے ہیں۔

بھارت کا اپنا حال یہ ہے کہ وہ کئی داخلی علیحدگی پسند تحریکوں کا سامنا کر رہا ہے۔ کشمیر، خالصتان، ناگا لینڈ اور آسام میں دہائیوں پر محیط تحریکیں ابھی تک ختم نہیں ہوئیں۔ ایسے میں پاکستان یا سندھ پر انگلی اٹھانا بھارت کے دوہرے معیار کو ظاہر کرتا ہے۔ جو ملک اپنے اندر کی آوازیں نہیں سن سکتا، وہ دوسروں کے صوبے ’’اپنے نقشے‘‘ میں شامل کرنے کی بات کر کے صرف اپنی کمزوری دکھاتا ہے۔سندھی روایت میں مہمان نوازی کے ساتھ دھرتی سے وفاداری انتہائی اہم قدر ہے۔ چاہے کراچی ہو یا سکھر، عمرکوٹ ہو یا لاڑکانہ، سندھ کا ہر فرد اپنی سرزمین پر کسی بیرونی مداخلت کو برداشت نہیں کرتا۔ بھارتی وزیر کا بیان سندھیوں کی وفاداری پر سوال اٹھانے کی ایک ناکام کوشش ہے، جسے سندھ کے لوگ مکمل طور پر مسترد کر چکے ہیں۔ سندھ کے شاعر، ادیب اور دانشور ہمیشہ کہتے آئے ہیں کہ مضبوط وفاقی پاکستان ہی سندھ کی طاقت اور استحکام ہے۔

پاکستانی عوام نے بھی اس بیان کو رد کیا ہے۔ پاکستان ایک ایٹمی صلاحیت رکھنے والا مضبوط ملک ہے، جس کی فوج، سفارت کاری اور دفاعی پالیسی مستحکم بنیادوں پر کھڑی ہے۔ بھارت کا یہ بیان نہ عملی اہمیت رکھتا ہے، نہ عالمی سطح پر اس کی کوئی ساکھ ہے۔ یہ محض بھارت کی انتہا پسند سیاست کا ایک شوشہ ہے جو پاکستان مخالف بیانیے کے بغیر آگے نہیں چل سکتی۔

امن سندھ کا بنیادی پیغام رہا ہے، مگر امن کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی اس کی زمین یا شناخت پر شب خون مارنے کا اعلان کرے۔ جدید سندھ سیاسی طور پر باشعور ہے اور پاکستان کے آئین کو اپنی بنیاد سمجھتا ہے۔ سندھ اپنی تاریخ میں کبھی غلامی قبول نہیں کرتا رہا اور آج بھی پاکستان کے آزاد اور خودمختار صوبے کے طور پر اپنی حیثیت پوری طاقت سے قائم رکھے ہوئے ہے۔

بھارتی بیان کے بعد پاکستان میں قومی سطح پر مزید یکجہتی پیدا ہوئی ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ بھارت کے ایسے بیانات محض اشتعال انگیزی ہیں۔ مگر پاکستان متحد ہے اور سندھ اس اتحاد کی پہلی صف میں کھڑا ہے۔ بھارت صرف سندھ نہیں بلکہ پاکستان کی وحدت کو کمزور کرنے کا خواب دیکھتا ہے، جو کبھی پورا نہیں ہو سکے گا۔ پاکستان اور سندھ کی دھرتی مضبوط ہے، عوام باشعور ہیں اور اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرتے ہیں۔آخر میں سندھی عوام اور پاکستانی قوم کا پیغام بالکل واضح ہے،سندھ کسی کے باپ کی جاگیر نہیں۔ سندھ پاکستان ہے، پاکستان تھا اور پاکستان ہی رہے گا۔یہ دھرتی، اس کے لوگ، اس کی تاریخ اور اس کی محبت ہمیشہ پاکستان کے نام رہی ہے اور رہے گی۔

تازہ ترین