جدید معیشت نے انسان کا جو تصور پیش کیا وہ خالص مادہ پرستانہ ہے جس کا مقصد اپنے ذرائع آمدنی میں اضافہ ہے، تاکہ اس سے وہ زیادہ سے زیادہ خواہشات پوری کرکے اپنی آزادی میں اضافہ کرسکے۔ اس کھلی ڈلی اور مادرپدر آزادی کا مقصد لذت اور معیار زندگی میں مسلسل اضافہ ہے۔ اسی لئے جدیدیت میں سرمایہ اور آزادی لازم ملزوم ہیں۔ سرمایہ جتنا بڑھتا ہے آزادی کا دائرہ اتنا ہی وسیع ہوتا چلا جاتا ہے۔ آزادی کے دائرے کی وسعت لامحدود ہے۔ ’’کیتھولک ازم‘‘ فقر وفاقہ، درویشی، رہبانیت، سادگی اور سیدھی سادی زندگی کو حضرت عیسیٰ اور دیگر انبیا کی اتباع میں قابل فخر، طرزِ زندگی کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ’’کالونیل ازم‘‘ کے بعد جب یورپی لوگوں کا طرز زندگی اور معاشرت تبدیل ہوئی تو انکی گناہگار زندگی کیتھولک ازم کے بجائے پروٹسٹنٹ ازم سے ہم آہنگ ہوگئی۔ لوگ دہریے، ملحد، مذاہب سے آزاد ہوگئے یا پھر کیتھولک ازم سے نکل کر لوتھر کی عیسائیت میں داخل ہوگئے۔ یہاں پر ہر شخص کو انجیل کی تشریح کا اختیار تھا۔ کیتھولک کلیسا کی غفلت، لاپروائی اور کالونائزیشن کے خلاف دانستہ خاموشی نے آزادی، ترقی اور معیارِ زندگی میں مستقل اضافے کی اقدار کو یورپ کے عیسائیوں کے لیے ایک فطری طرز زندگی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ جدیدیت کے اہم مفکرین ڈیکارٹ، اسپینوزا، لائبنز، لاک، برکلے، ہیوم، ہیگل مارکس، فخٹے، روسو، والٹیر، ٹاکو ویلی ہابس اور کانٹ ہیں۔اسکاٹش اینلایٹمنٹ فلسفے کا رد علامہ اقبال نے کیا۔ مفکر پاکستان علامہ اقبال ؒنے اس فلسفے کا رَد کر تے ہوئے کہاتھا کہ دنیا نہیں مردانِ جفاکش کے لیے تنگ۔کامیابی کا تصور نظام معیشت سے وابستہ نہیں، بلکہ محنت، مشقت، عزم، حوصلے، سادگی اور خلوص کے پیکر بغیر سرمائے کے بھی دنیا میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر سیاست کی دنیا کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے جنوبی افریقا کے پسماندہ گاؤں ”قونو“ کے ایک چرواہے کو آزادی کا ہیرو ”نیلسن منڈیلا“ بنادیا۔ اسی طرح ریڑھی پر پھل رکھ کر بیچنے والے سوکھے سڑے انسان کو ملائیشیا کا وزیراعظم ”مہاتیر محمد“ بنادیا۔ اگر سماج کی بات کی جائے تو مشرق و مغرب کے وہ تمام بڑے لوگ جنہوں نے قوموں، اُمتوں اور تہذیبوں کا سمتِ سفر تبدیل کیا، معاشرتی انقلاب برپا کیے یعنی افلاطون، ارسطو، سقراط اور بقراط سے لیکر سارتر سپنسر نطشے، فرائیڈ ہیگل اور روسو تک ان سب کا راستہ امیری نہیں فقیری تھا، ہے اور رہے گا۔ اسی طرح اگر معیشت کی دنیا کی بات کی جائے تو بنگلہ دیش میں غریبوں کیلئے 30 ڈالر سے قائم ہونے والے ڈاکٹر یونس کے ’’گرامین بینک‘‘ نے دنیا کو نیا معاشی فارمولہ دیا ہے۔ اس بینک کی 1041شاخیں ہیں، لیکن اس کے بورڈ آف گورنرز میں آج بھی 13 میں سے 9 ممبران عام اَن پڑھ دیہاتی جفاکش مزدور ہیں۔ اسی طرح ریڑھی پر برگر سے کام شروع کرنے والے ”ہارلینڈ ڈیوڈ سینڈرز“پوری دنیا میں معروف فوڈ چین کے ارب کھر ب پتی بن گئے۔ اسکے بے شمار ذیلی ادارے 200ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ”ہنری فورڈ“ بھی ایک غریب کسان کا بیٹا تھا۔ یہ اپنی محنت کے بل بوتے پر پہلے صنعت کار اورآخر میں فورڈ موٹر کمپنی کا بانی بنا۔ فورڈ کمپنی امریکا کی دوسری بڑی آٹو میکر کمپنی اور دنیا کی پانچویں بڑی کمپنی ہے۔ امریکا کی پانچ سو بڑی کمپنیوں میں سے آٹھویں نمبر پر ہے۔ 2009ءمیں اس کی آمدنی 118.3 بلین ڈالر تھی۔ 2008ءمیں اس نے 5.532ملین ڈالر موبائلز بنائیں۔ اس کمپنی کے ملازمین کی تعداد 2 لاکھ 13ہزار ہے، جو دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ چاپان سے تعلق رکھنے والا ”سوئچرو ہنڈا“ ایک غریب لوہار کا بیٹا تھا۔ انتھک محنت کر کے انجینئر اور صنعت کار بنا۔ اس نے 1948ءمیں اپنے خاندان کے نام ”ہنڈا“ کمپنی کی بنیاد رکھی۔ یہ ایک لکڑی کی مینو فیکچرنگ بائیسائیکل موٹرز سے بڑھتی، پھلتی پھولتی ایک کثیر القومی کمپنی آٹو موبائل اور موٹر سائیکل مینو فیکچرر بن گئی۔ چین سے تعلق رکھنے والا ”لی کاشنگ“ ایک غریب اسکول ٹیچر کا بیٹا تھا۔ ہانگ کانگ کے بزنس مین، سرمایہ کار اور سماجی و فلاحی شخصیت کے طور پر ابھرا۔ 2008 ءمیں یہ ایشیا کا امیر ترین اور دنیا کا گیارہویں نمبر پر تھا۔تھوڑا سا دور چلے جائیں۔ ”کرسٹوفر کولمبس“جس نے امریکا دریافت کیا، ایک جولاہے کا لڑکا تھا۔ کرسٹوفر کولمبس نے ایک غریب گھرانے میں 1451ءمیں آنکھ کھولی۔ مشقتیں برداشت کیں۔ انتھک محنت کی۔ یہاں تک کہ کامیاب ہوگیا۔ ملکہ ”ازابیلا“اور ”فرڈی نینڈ“نے اسے چھوٹے جہاز دیے جن سے اس نے 1492ء میں امریکا دریافت کیا۔ کولمبس کی اس دریافت نے دریافتوں، مہم جوئی اور نوآبادیوں کا ایک نیا سلسلہ کھولا اور تاریخ کے دھارے کو بدل دیا۔تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ حکیم لقمان بچپن میں موم بتیاں بناتے تھے۔ ناصر الدین بادشاہ بچپن میں ٹوپیاں بیچا کرتے تھے۔ روس کا سابق ڈکٹیٹر اسٹالن ایک موچی کے گھر میں پیدا ہوا۔ فرانس کا مشہور حکمراں نپولین ابتدا میں ایک معمولی سپاہی تھا۔ مشہور سائنسدان ’’تھامس الوا ایڈیسن‘‘ ایک معمولی اخبار فروش تھا۔مشہور انگریز سائنس دان ’’مائیکل فیرا ڈے‘‘ لندن کے مضافات میں ایک غریب لوہار کے گھر پیدا ہوا۔ مشہور امریکی مدبر، مصنف اور سائنسدان ’’بنجمن فرینکلن‘‘ بوسٹن میں غریب والدین کے گھر پیدا ہوا۔ مشہور سائنس دان ”جان کپلر“ بھی جرمنی کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔ آپ کہیں گے یہ تو قدیم مثالیں ہیں۔ اسی طرح آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں آپ نے ان ممالک اور معاشروں کی مثالیں دی ہیں جہاں پر امیر اور غریب دونوں کیلئے ترقی کے یکساں مواقع میسر ہیں۔ ان معاشروں اور ممالک میں کوئی بھی شخص اپنی انتھک محنت، توجہ اور صلاحیت کے بل بوتے پر آگے بڑھنے کا خواب پورا کرسکتا ہے، ہمارا معاشرہ تو بانجھ پن کا شکار ہے۔ یہاں پر جائز اور سسٹم کے طریقے پر چل کر اعلیٰ منصب، دولت، ترقی اور شہرت حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ تو میرے بھائیو! یاد رکھو! ایسا ہر گز نہیں ہے۔بس نئی جنریشن کو مختلف اسکلز سیکھ کر انتھک محنت کرنی چاہئے۔