ہم عمران خان کو مسیحا سمجھتے ہیں، ہم نواز شریف کے حامی ہیں، ہم بھٹوز کا دم بھرتے ہیں، یا غیر سیاسی قوتوں کو ان سب پر فوقیت دیتے ہیں، سوال یہ ہے کہ ہم یہ فیصلہ کیسے کرتے ہیں؟ ایک سیاسی راہ نما کو دوسرے پر ترجیح کیوں دیتے ہیں؟ اگر ہم کسی سیاسی راہ نما کو اپنے ووٹ کا حق دار نہیں سمجھتے تو نہ سمجھیں مگر ہم اُس سے نفرت کیوں کرتے ہیں، اُسے’’ذاتی‘‘ دشمن کیوں تصور کرنے لگتے ہیں؟
اکثر لوگوں سے ہم یہ سوال پوچھتے ہیں کہ آپ کے مرغوب راہ نما نے اپنے دورِ اقتدار میں وہ کون سے کارہائے نمایاں سر انجام دیے جن کے تسلسل کی آپ خواہش رکھتے ہیں، یا وہ کون سے کام ادھورے چھوڑ گیا جن کی تکمیل سے آپ کا اور عوام کا بھلا ہو گا۔ اور پھر ہمیں’’میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں‘‘ والی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کریدنے پر علم ہوتا ہے کہ کسی راہ نما کا انتخاب اس لیے کیا جاتا ہے کہ وہ’’مظلومین‘‘ کے گھرانے سے ہے، کوئی بہ طور وزیرِ اعظم’’جچتا‘‘ہے، اور کوئی’’شائستگی‘‘ کی علامت ہے۔ سوال پھر وہی ہے کہ ہم سیاسی حمایت کا فیصلہ کس طرح کرتے ہیں، عقل سے یا جذبات سے؟ بلکہ سیاست تو ایک بات ہے، ہم اپنے تمام فیصلے کس طرح کرتے ہیں، عقل سے، جذبات سے، یا دونوں کے اشتراک سے؟یہ عقل اور جذبات کا جھگڑا بہت پرانا ہے، بلا شبہ اس کا آغاز آدم و حوا کے قصے سے ہی ہو گیا تھا۔ مغرب میں نشاۃ ثانیہ کی تحریک کے بعد عقل کی حکم رانی کا دور شروع ہوا، سائنس، تعقل پسندی، عالم گیریت، اور مرتب افکار کی حاکمیت تسلیم کی گئی، مگر جلد ہی اس کا ردِ عمل بھی سامنے آیا جسے ہم رومانیت کی تحریک کے نام سے جانتے ہیں، اس تحریک کے مرکزی نکات تخیل، جذبات اور انفرادیت تھے، یہ تحریک فطرت کی مدح خواں تھی اور ماورائی عناصر میں دلچسپی رکھتی تھی۔ اقبالؔ کے الفاظ میں’’نکل جا عقل سے آگے کہ یہ نور...چراغِ راہ ہے منزل نہیں ہے۔‘‘فرد کی زندگی میں، یعنی ہماری زندگیوں میں بھی یہ محاربہ چلتا ہی رہتا ہے، ہر فیصلے میں عقل اور جذبات کی پنجہ آزمائی جاری رہتی ہے، خواہ ہم اس سے آگاہ ہوں نہ ہوں۔ نفسیات دان متفق ہیں کہ ہمارے اکثر فیصلے جذبات کی بنیاد پر کھڑے ہوتے ہیں، ہم ان کے اوپر عقل کا غلاف چڑھا کر اپنے ’’منطقی‘‘ ہونے کا ثبوت فراہم کرتے ہیں، اس لیے کہ ہم شعوری سطح پر’’دلیل‘‘کی حاکمیت تسلیم کرتے ہیں۔’’آپ جذباتی بات کر رہے ہیں‘‘یہ فقرہ آپ نے سنا ہو گا، شاید استعمال بھی کیا ہو، اس میں جذبات کی فرو تر حیثیت اور عقل کی برتری کا اعتراف ہے۔
جذبات کے اعتراف میں ہمیں کچھ شرم ساری کا سا احساس رہتا ہے، اور عقل کی امامت ہمیں عاقل اور ’’نارمل‘‘ثابت کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جذبات ہمیں تحرک پر آمادہ کرتے ہیں۔ ہم گھر سے مظلوم کو ووٹ ڈالنے نکلتے ہیں، غصے میں نکلتے ہیں، امید میں، کسی کی محبت میں، کسی کے خوف میں نکلتے ہیں، جی ڈ ی پی بہتر کرنے کیلئے یا ٹیکس کا نظام بہتر کرنے کیلئے نہیں۔ اور یہ سب جذبات ہیں منطق نہیں۔ کچھ باتیں ہم منطقی طور پر سمجھتے ہیں، مگر جذبات فیصلہ کرتے ہیں کہ ہمارے لیے ان باتوں کی کس قدر اہمیت ہے، ہے بھی کہ نہیں۔
کوئی کہتا ہے ہم’’خاندانی‘‘طور پرمسلم لیگی ہیں، یا ہماری ساری برادری ہی’’ایک‘‘ پارٹی کو ووٹ دے رہی ہے، یا سب پڑھے لکھے لوگ’’اسی‘‘ کو ووٹ دے رہے ہیں، یا ہمارا لیڈر کرشماتی شخصیت رکھتا ہے۔ ان میں سے مدلل وجہ کون سی ہے؟ شاید کوئی بھی نہیں۔ اگر سیاسی جماعتوں کے’’بیانیے‘‘ دیکھیں (بیانیہ بہ ذاتِ خود جذبات پر بھروسہ کرتا ہے، عقل اور حقائق پر نہیں) تو یہ مسئلہ اور واضع ہوتا ہے۔ پارٹی جھنڈے کے رنگوں سے انتخابی ترانوں تک، سیاسی جماعتیں جذبات بیدار کرتی ہیں، عقل کو مخاطب نہیں کرتیں۔ اور ٹھیک کرتی ہیں کیوں کہ انسانی دماغ میں جذباتی ردِ عمل مِلی سیکنڈز میں پیدا ہوتا ہے، عقل ابھی انگڑائی لے رہی ہوتی ہے۔ زندگی ایک پیچیدہ عمل ہے، اس گتھی کو سلجھانے کیلئے جذبات شارٹ کٹ بتاتے ہیں، جب کہ عقل ہر لحظہ تفصیلی حساب کتاب کا تقاضا کرتی ہے۔ اپنے جذبات کے حق میں دلیلیں تراشنا، یا اکٹھی کرنا نسبتاً سہولت کا کام ہے۔ قارئین اور ناظرین جو صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی جھک جھک اپنے جذبات کو دلیل فراہم کرنےکیلئے ہی پڑھتے اور سنتے ہیں۔ ہم جذبات کے اسیر کیوں ہیں۔ سیانے کہتے ہیں ہم میں یہ عنصر اجداد سے آیا ہے، انہیں زندگی کی بقا کیلئے فوری جذباتی ردِ عمل (خطرہ، خوف، غصہ، بھروسہ) ہی کی ضرورت پڑتی تھی۔آپ سے فیصلہ کروانےکیلئے مارکیٹنگ اور اشتہارات بنانے والے کیا کرتے ہیں؟ اشتہارات آپ کو عقل سے کوسوں دور جذبات کی دنیا میں لے جانے کیلئے ہی بنائے جاتے ہیں۔ اشتہاروں میں مائیں، خاندان، جوانی، حُسن، کامیاب لوگ، یہ ہماری عقل سے مخاطب نہیں ہوتے۔ اشتہارات بنانے والے تو صاف کہتے ہیں ہم پراڈکٹ نہیں’’احساس‘‘ بیچتے ہیں۔ یہی مارکیٹنگ کمپنیاں سیاسی جماعتوں کیلئے بھی کام کرتی ہیں، اور وہی کام کرتی ہیں جو مصنوعات کیلئے سرانجام دیتی ہیں۔
ہماری ملکی سیاسی تاریخ جذبات کی حاکمیت کی گواہ ہے۔ ملکہء جذبات بہار بیگم کی پہلی فلم چن ماہی کا ایک گیت ہے’’ساڈے انگ انگ وچ پیار نے پینگاں پائیاں نے‘‘۔ کچھ ایسا ہی معاملہ مقبول سیاسی راہ نماوں کا بھی ہوتا ہے۔آج بھی جب کوئی ’’مقبول لیڈر‘‘ کے حق میں’’دلائل‘‘ دے رہا ہو تو دل سے آواز اٹھتی ہے’’عقل نوں ہتھ مار، یار‘‘۔