نیپا چورنگی کی شام ہمیشہ کی طرح شور اور بھاگ دوڑ میں لپٹی ہوئی تھی۔ ـاسی بھیڑ بھاڑ کے بیچ ایک موٹر سائیکل راستہ بناتی ہوئی آئی اور ایک بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹور کے سامنے آکر رکی۔ اس پر ایک میاں بیوی اور ان کا تین سالہ بیٹا سوار تھے۔ مہینے کی پہلی تاریخ تھی جب تنخواہیں ملتی ہیں اور مہینے بھر کا سودا سلف لینے والوں کا رش بڑھ جاتا ہے۔ اسٹور میں بھی لوگوں کا ایک ہجوم تھا۔کون جانے وہ ننھا بچہ ابھی مونٹیسری جاتا بھی تھا یا نہیں۔ شاید اس نے تنخواہ ملنے پر ماں باپ سے کوئی کھلونا، کوئی چھوٹی سی فرمائش کی ہو گی۔تاہم یہ ننھا سا خاندان کیا جانے کہ اسی نیپا چورنگی کے قریب، سڑک کے شور میں گم، ایک مین ہول خاموشی سے اپنا منہ کھولے بیٹھا ہے۔ شہر بھر کے دیگر مین ہولز کی طرح اس پر بھی نہ کوئی ڈھکن ہے، نہ کوئی انتباہ، نہ ہی رکاوٹ کا کوئی نشان ـ صرف بےحسی سے گزرتی ٹریفک اور ڈیپارٹمنٹل اسٹور کی پیشہ ورانہ، مگر بے رحم مصروفیت۔غالباً بچے کے والدین جب خریداری کر کے اسٹور سے باہر نکلے ہوں گے،ہاتھوں میں سامان سے بھرے تھیلے اور بل کی رسیدیں ہوں گی۔کیا معلوم بچہ باہر نکلتے ہی کسی چیز پر ضد کر بیٹھا ہو؟ شاید اس نے رنگ برنگے غبارے دیکھے ہوں، شاید ٹھیلے والے کے پاس کوئی کھلونا یا چپس کا پیکٹ رکھا ہو جس پر ہر بچہ بے اختیار لپک پڑتا ہے ـ نہ جانے کیا دیکھ کر وہ ہاتھ جھٹک کر دوڑا ہوگا ؟ بس وہی ایک لمحہ تھا جس میں سب سے چُوک ہو گئی ـ جس میں قسمت نے رخ بدل لیا اور ٹھیک اسی لمحے زمین اس ننھے بچے کے قدموں کے نیچے سے غائب ہوگئی۔اور اسی مختصر سے لمحے میں وہ بچہ گہرے اندھیرے میں جا گرا۔ماں باپ نے صرف ایک چیخ سنی ...وہ چیخ جو شاید زندگی بھر ان کے کانوں میں گونجتی رہے گی۔ ماں باپ دیوانہ وار دوڑے ، ہاتھ بڑھایا، مگر ہاتھ میں کچھ نہ آیا ـ وہاں صرف سیاہ، بدبو دار، کھلا ہوا مین ہول تھا... جو شہر کی انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت ، ڈیپارٹمنٹل اسٹور کے مالکان کی سرمایہ دارانہ ہوس اور شہریوں کی بےحسی کا شاخسانہ تھا۔لوگ اکٹھے ہوئے۔ کوئی فون نکال کر ویڈیو بنانے لگا، کوئی امداد کیلئے چلایا۔ کوئی صرف تماشہ دیکھنے کو رک گیا ـ کچھ ہی دیر میں سڑک پر ہلچل سی مچ گئی۔ حکومتی کارندے جائے وقوع کی طرف لپکے، میڈیا ٹیمیں لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ کیلئے پہنچ گئیں، اور اپوزیشن والے بھی اپنی موجودگی کا ثبوت دینے آن دھمکے۔ ریسکیو اہلکاروں نے رسیاں اتاریں، جگہ جگہ کھدائی ہوئی، پانی نکالنے کی کوششیں ہوئیں مگر اندھیرا بہت گہرا تھا اور بہاؤ بے حد تیز۔گھنٹے گزرتے گئے... باپ دیوانگی کی حد تک دہائیاں دیتا رہا، ماں کی سسکیاں اور آہ و زاریاں جیسے عرش کو لرزا رہی تھیں، مگر ان کے لختِ جگر کا سراغ پوری رات نہ مل سکا۔ وہ دونوں کھلے آسمان تلے اسی امید میں کھڑے رہے کہ شاید اگلے ہی لمحے کوئی آواز آئے، کوئی کہے کہ بچہ مل گیا ہے ...زندہ، سانس لیتا ہوا۔ مگر سانسیں تو اسی پل ٹوٹ گئی تھیں جب وہ تاریک مین ہول میں گرا تھا۔پندرہ گھنٹے بعد، جائے وقوع سے محض چار کلومیٹر دور ایک نالے سے اس معصوم کی لاش برآمد ہوئی اور یہ کارنامہ کسی ماہر ریسکیو اہلکار نے نہیں بلکہ ایک نوعمر خاکروب نے انجام دیا، جو روزانہ انہی گندی نالیوں میں اتر کر اپنی روٹی کا بندوبست کرتا ہے۔اس نے لرزتے ہاتھوں سے بچے کی لاش پانی سے نکالی اور حکومتی اہلکاروں کے حوالے کی ـاس خاکروب بچے کو سراہنے اور انعام سے نوازنے کے بجائے پولیس نے اس غریب لڑکے کو الٹا مارا پیٹا اور اس مدد کو "مداخلت" کا طعنہ دیا، اور پھر کچھ ہی دیر میں میڈیا کیمروں کے سامنے ایسے پیش ہوئے جیسے یہ کامیابی صرف انہی کی محنت کا ثمر ہو۔ کریڈٹ بٹورنے کے اس بے رحم کھیل میں وہی لڑکا، جو حقیقت میں سب سے پہلے اندھیرے میں اترا اسے مکمل نظر انداز کر دیا گیاـ ۔اب باری الزام تراشی کی تھی۔عوام غصّے میں حکومتی اداروں پر انگلیاں اٹھا رہے تھے، اور حکومتی ادارے سارا ملبہ علاقے کے نشئیوں اور آوارہ گردوں پر ڈال کر اپنی ذمہ داری سے جان چھڑانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اپوزیشن اس سانحے کو اپنا سیاسی پتّا سمجھ کر پوری مہارت سے کھیل رہی تھی۔ روزانہ کروڑوں کمانے والے ڈیپارٹمنٹل اسٹور کے مالکان اپنے چہرے معصوم بنا کر صفائیاں پیش کر رہے تھے، اور الٹا بچے کے والدین کو غیر ذمہ دار قرار دے رہے تھے ـ ۔تمام لوگوں کی غصیلی نگاہیں مین ہول پر مرکوز تھیں جیسے سارا کیا دھرا اسی کا ہونہ یہ کم بخت یہاں ہوتا نہ اس کا ڈھکن غائب ہوتا اور نہ ہی بچے کی جان جاتی ـاس شور شرابے میں بوڑھا مین ہول خاموشی سے اپنا جرم قبول کر رہا تھا۔حقیقت تو یہ ہے کہ اس معصوم بچے کی موت میں سب شریک ہیں ـ سب برابر کے ذمہ دار۔ یہ سانحہ کسی ایک کی لغزش نہیں تھا؛ یہ پورے شہر کی اجتماعی بے حسی، اداروں کی ناکامی، سماجی غفلت، اورنظام کا وہ اندھاپن تھا جس نے ایک ننھی جان کی روشنی بجھا دی۔جب اس ننھے جسم کو اوپر لایا گیا تو نیپا چورنگی کا شور بھی چند لمحوں کیلئےتھم سا گیا، جیسا کہ ہر بڑے سانحے کے بعد چند ساعتوں کیلئے سکوت چھا جاتا ہے.. جب شہر اپنی ہی بے حسی کی آواز سنتا ہےمگر یہ سناٹا یہاں بھی زیادہ دیر نہ ٹھہرا۔ جلد ہی ٹریفک پھر گرجنے لگا،شہر دوبارہ اس مصروفیت میں کھو گیا جِسے وہ زندگی سمجھتا ہے۔ لیکن کیا ان والدین کی زندگی میں امید کی کوئی رمق واپس آ سکتی ہے جن کا پھول ایک لمحے میں کملا گیا ؟ تلخ حقیقت تویہی ہے کہ یہ کھلے مین ہول کسی ایک علاقے یا ایک حادثے کا مسئلہ نہیں۔ یہ شہر کے ہرامیر غریب محلوں اور گلیوں میں یوں بکھرے پڑے ہیں جیسے کراچی کی اجتماعی غفلت نے انہیں برسوں سے پال رکھا ہو.. لیکن کوئی اس اندھیرے میں جھانکنے کی زحمت تک نہیں کرتا کہ یہ کتنی روشن زندگیوں کو نگل سکتے ہیںاور وہ مین ہول؟وہ تو وہیں ہے...جوں کا توں۔جیسے کہہ رہا ہو:“میرا قصور تو بس اتنا ہے کہ میرے اوپر چھت نہیں۔ میں تو وہ اندھیرا ہوں جسے تم نے برسوں سے ڈھکنا ہی نہیں چاہا۔مین ہول کا یہ بے صدا شکوہ اس شہر میں دیر تک گونجتا رہا، مگر شہر نے ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر کچھ نہ سنا۔