• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دیسی مہینوں کی مناسبت سے بارہ ماسے(بارہ ماہے)آپ کو یاد نہ بھی ہوں مگریہ تو اندازہ ہوگا کہ کچھ مقبول نظمیں رومی یا عیسوی کیلنڈر سے بھی چپک گئی ہیں،جیسے دسمبر آئے تو کوئی عرش صدیقی کا شاگرد ہو یا نہ ہو وہ ان کی تصویر کے ساتھ پوری نظم لکھ دیتا ہے ’’اسے کہنا دسمبر آگیا ہے‘‘اسے یا اس کے مخاطب کو یہ معلوم ہو یا نہ ہو، وہ انگریزی کے استاد تھے گورداس پور سے لاہور اور وہاں سے ملتان آئے تھے پھر آپ جانتے ہیں کہ کوئی نظم مقبول ہو جائے تو کچھ طباع اس میں تحریف کرتے ہیں یا اسی اسلوب میں کچھ شگفتگی پیدا کر دیتے ہیں جیسے سرجن ہارون پاشا نے اپنی وال پر ایک طویل نظم آویزاں کی ہے جس کا ایک حصہ نقل کیا جا رہا ہے

’’اسے کہہ دو دسمبر آ چکا ہے

میرے اوور کوٹ، میری جرسیاں

میری گرم پتلونیں،میرے کمبل

واپس کر دو

جو تم نے محبت کے نام پر

مستعار لئے تھے

کہیں ایسا نہ ہو

سرد رات کے کسی پہر میں

مجھے ٹھنڈ لگ جائے

اور میں تمہارے نام کی حرارت میں

پگھل کر مر جاؤں

میں نے تو تمہیں دھوپ دی تھی

تم نے مجھے سایہ بھی نہ دیا ‘‘

اسے بیویوں سے بے لوث محبت کرنیوالوں کا بیانیہ کہا جا سکتا ہے وگرنہ کوئی دوست کو دی ہوئی جرسی واپس نہیں مانگتا اور نہ ہی وہ کمبل جس پہ مشترکہ ہیں احسان غمِ الفت کےمگر جب سے شہر بہ شہر یا کوبکو دیوارِ ضرورت بنائی جا رہی ہے کہ سردیوں میں ضرورت مند وہاں سے جرسی،یا کمبل ہی نہیں ،لحاف کے ساتھ جوتے بھی لے سکیں تب سے کچھ سفید پوش نیک دلوں نے سرجن ہارون پاشا کی طرح دی ہوئی چیزیں واپس مانگنی شروع کر دی ہیں حالانکہ جب سے تھائی لینڈ،ہانگ کانگ کے راستے امریکی کپڑوں کی اترن آنا شروع ہوئی ہے بہت سے بھرم قائم ہو گئے ہیں وگرنہ حوری اور زیبی بہنیں آتش دان کے قریب بیٹھ کے سوئیٹر اور جرسیاں بُنا کرتی تھیں پھر اس روش کو نٹنگ مشینوں نے بدلا یا پھر جیکٹوں کی بھرمار نے اسے قصہ پارینہ بنا دیا۔

دیوارِ ضرورت بنانیوالوں کی نیک دلی کا ذکر ہو تو پھر دسترخوان سجا کر مہمان نوازی کرنیوالے یا سودو سو کم وسیلہ بچیوں کو جہیز دینے والے اچھے لوگ بھی ہمارے ہاں ہیں اور ساتھ ہی ایثار کے ساتھ درد مندی اور اخلاص کو اقدار میں بدلنے والے پاک باز بھی ۔ اس کے باوجود کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں ہمارے ہاں صرف یاس کے منظر دکھائی دیتے ہیں،ایک چینل ہے اسے کھولیں تو کراچی کی کسی بلڈنگ میں لگی ہوئی آگ کا ذکر کرے گا اس آگ کو اگر فائر بریگیڈ کے رضاکار بجھا لیں تو کبھی انکی فرض شناسی کی تعریف نہیں کرے گا بلکہ اس کے اینکر کہیں گے کہ تجربہ کار لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ آگ نیم دلی سے بجھی ہے نصف شب کے بعد یہ پھر سے بھڑک اٹھے گی۔ کچھ ایسے ہی لوگ ہیں جنہیں ہسپتالوں میں کام کرتے ڈاکٹر اور نرسیں،دفتروں میں یاکھیتوں کھلیانوں میں کام کرتے حتیٰ کہ بھارت کے گھمنڈ کو توڑنے والے پہرے داربھی اچھے نہیں لگتے اور نہ ہی کسی قیدی کے بارے میں پسندیدہ افواہیں پھیلانے کے بعد اس سے ملنے والی بہن کے اس مسرت بھرے فقرے کو بھی نظر انداز کرنے میں لطف آتا ہے ’خدا کا شکر ہے میرا بھائی ہر طرح صحت مند ہے ‘ بے شک ہم سب چاہتے ہیں کہ ہمارے اس قیدی کے نادان دوستوں کو ہدایت ملے یا تاریخ سے روشنی کہ کچھ گرہیں سلجھ جائیں۔

٭٭٭٭

ابھی کون ہے جس نے تین برس کے پیارے ابراہیم کو ایک ڈھکن کے بغیر گٹر میں گرتے اس کی ماں اور دادا کو بین کرکے روتے دیکھا اور سنا نہیں اور ان کیلئے آنسوؤں کے ساتھ دعا نہیں کی؟ پھر کچھ مذاکرے شروع ہوئے کہ وہ نشئی جو مین ہول کے فائبر والے ڈھکن بھی چرا کے ’خدا کی بستی ‘کے سفاک کباڑیوں کے پاس فروخت کرتے ہیں ان کا قلع قمع کرنے کیلئے آئی ایم ایف سے مزید قرض لے کر ایک وزارت تشکیل دی جائے۔ کسی نے اس نوعمر کی تعریف نہ کی جس نے ایک ڈیڑھ کلومیٹر کھدے علاقے کے گٹروں میں غوطہ لگا کے ہمارے اس پھول کی لاش نکالی کہ عزیز و اقارب کا گریہ سولی سے اترے اس موقع پر ابراہیم کے والد کا طرزِ عمل مثالی ہے جس نے کہا کہ کراچی شہر میں جہاں کہیں مین ہول سے ڈھکن غائب ہو مجھے اطلاع دیں میں اپنے ابراہیم کی یاد میں وہ لگواؤں گا۔ کراچی اہل دل اور ہنر مندوں کے ساتھ خیال افروز نقاشوں کا شہر ہے وہ ایسا نقش تیار کر سکتے ہیں کہ نشیوں اور کباڑیوں کا ضمیر بھی جاگ جائے،تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ ذمہ داروں کا تعین نہ کیا جائے؟ ان کا محاسبہ نہ ہو۔بات احتساب کی ہو تو آواز بلند ہوتی ہے۔

تختہ دارپہ چاہے جسے لٹکا دیجئے

اتنے لوگوں میں کوئی گنہگار تو ہوگا

ایسے میں کراچی کے نوجوان مئیر نے ہمارے ننھے ابراہیم کے دادا اور والدین سے ان کے گھر جا کے معافی مانگی ہے اور یہ وہ دن ہے جب پاکستان کے زندہ ولی ڈاکٹر رضوی ادیب نے بلاول کو گلے لگا کے پیار کیا ہے اور دعا دی ہے اس لئے مجھے یہ نہیں بتانا چاہئے کہ مذکورہ بالا شعر شہزاد احمد کا ہے جو امرتسر سے لاہور آئے تھے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے فلسفہ اور ایم اے نفسیات کیا اور ذوالفقار علی بھٹو نے اسے روٹی پلانٹ کا جنرل منیجر بنایا تھا اور جسے اس روٹی کا ذائقہ یاد ہے اور وہ واقف ہے کہ اس پکی پکائی روٹی نے کارکن خواتین کی ازدواجی زندگی کو کتنا سکھ دیا تھا۔ چلیں ایک فقرہ یہ تو لکھ دیا جائے کہ اس کالم کے آغاز میں جس سرجن ہارون کی شگفتہ نظم کا ایک بند درج کیا گیا ان کے والد گرامی خواجہ خورشید احمد مرحوم بھی امرتسر سے لاہور آئے اور پھر ملتان میں پڑھتے پڑھاتے اور بشاشت بکھیرتے رہے۔

تازہ ترین