رینی ڈیکارٹ نے ایک بار کہا تھا’’میں سوچتا ہوں، لہٰذا میں ہوں۔‘‘ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انسان ہونے کا مطلب ہے اپنے ذہن کو استعمال کرنا، سوال کرنا، غور کرنا اور نئے خیالات پیدا کرنا۔ اسکول وہ جگہ ہیں جہاں یہ صلاحیت پروان چڑھتی ہے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے بڑے ہو کر صاف، پُراعتماد اور خودمختار طریقے سے سوچ سکیں، تو ہمارا تعلیمی نظام اس مقصد کی حقیقی حمایت کرے۔ طلبہ کو وہ آزادی چاہئے کہ وہ سوال کر سکیں، جستجو کر سکیں، اور صرف سخت اصولوں یا رٹا لگانے تک محدود نہ رہیں۔ تدریس اور امتحان دونوں کو ملکر ایسی صلاحیتیں پیدا کرنی چاہئیں جو مسئلہ حل کرنے، تنقیدی سوچ اور عملی سمجھ بوجھ کو فروغ دیں، نہ کہ صرف یادداشت پر انحصار ہو۔
پاکستان میں اس سمت میں کئی کوششیں کی گئی ہیں، لیکن نظام ابھی تک مکمل کامیابی حاصل نہیں کر سکا۔ اگرچہ تنقیدی سوچ کو فروغ دینے کی بات بہت ہوتی ہے، لیکن ایک اہم ربط اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہےکورس کے مواد، امتحانی نظام اور اساتذہ کی تربیت اور مہارت کے درمیان تعلق۔ یہی وجہ ہے کہ طلبہ کو اب بھی وہ تعلیم نصیب نہیں ہو رہی جو انہیں حقیقی معنوں میں خود سے سوچنے اور سمجھنے کے قابل بنا سکے۔
اس سال اعلیٰ ثانوی امتحانات میں کچھ سرکاری اسکولوں میں پاس ہونے کی شرح محض بیس فیصد تک ریکارڈ کی گئی، جبکہ کالج کی سطح پر ناکامی کی شرح چھپن فیصد تک پہنچ گئی۔اگرچہ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے، لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جانچ کے طریقۂ کار میں اچانک تبدیلی، جو اساتذہ اور اسکولوں کو درکار معاونت فراہم کئے بغیر نافذ کی گئی، اس ناکامی کی ایک بڑی وجہ بنی۔ مسئلہ پالیسی کی تبدیلی کو الزام دینے کا نہیں، بلکہ یہ سوچناہےکہ ایسی اصلاحات کس طرح نافذ کی جائیں کہ تمام بچے اس سے یکساں طور پر فائدہ اٹھا سکیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ نتائج میں اتنی تیزی سے کمی کیوں آئی اور کن حالات نے اس صورتحال کو جنم دیا۔ پاکستان میں طلباء کو سوچنے کی صلاحیت سے بہرہ ور کرنے اور رٹائی امتحانات کی حوصلہ شکنی کرنے کیلئے وفاق اور خیبرپختونخوا حکومت نے بالترتیب 2020ء اور 2022ء کو SLO پر مبنی نظام تعلیم متعارف کروایا۔ پاکستان میں SLO (Student Learning Outcomes) پر مبنی پالیسی کی بنیاد اس سوچ پر رکھی گئی کہ تعلیم صرف یادداشت تک محدود نہ رہے بلکہ طلبہ میں سمجھ، تجزیہ، تخلیقی سوچ اور مسئلہ حل کرنے کی اعلیٰ صلاحیتیں پیدا کی جائیں۔ اس نظام کے تحت اب امتحانات میں پرچے پانچ یا چھ سوالات پر مبنی نہیں ہوتے بلکہ معروضی سوالات کا ایک حصہ بھی شامل ہوتا ہے جو MCQs پرمشتمل ہوتا ہے۔ یہ ایک قابل تحسین اقدام ہے مگر سوال یہ ہے کہ آیا اساتذہ اس نظام کے تحت پڑھانے کے قابل بھی ہیں یا نہیں؟ اور نتیجتاً طلباء فائدہ حاصل کر رہے ہیں یا نقصان اٹھا رہے ہیں؟ ان سوالات کے جواب حاصل کرنے کیلئے پشاور اور اسلام آباد کے سیکنڈری اسکولوں میں ہم نے ایک تحقیق کی۔ انگریزی اور ریاضی کے اساتذہ کا ایک سروے کیا گیا جس میں ان اسکولوں کے سربراہان کو بھی شامل کیا گیا تاکہ ان سب کے تجربات سے آگاہی حاصل ہو۔
تحقیقی سروے سے معلوم ہوا کہ اساتذہ کی ایک بڑی تعداد اس نظام کے تحت پڑھانے کے اصولوں سے ناواقف ہے۔ اگرچہ وہ اپنی طرف سے مسلسل کاوش کر رہے ہیں لیکن جدید نظام سے متعلق تربیت نہ ہونے کی وجہ سے مقاصد کے حصول میں انہیں کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ اس سلسلے میں ایک استاد کا کہنا تھا: ’ہمیں SLO کے مطابق پڑھانا اچھا لگتاہےمگرہم ناواقف ہیں اگر اساتذہ کو تربیت دی جائے تو ہمیں اور طلباء کو بہت فائدہ ہو گا‘۔ ایک اور نویں جماعت کی استانی صاحبہ کا کہنا تھا کہ: ’’ہم تو بچوں کو یاد کراتے ہیں، لیکن وہ ٹھیک سے یاد نہیں کر پاتے کیونکہ ہمیں سمجھ کر پڑھانے میں دشواری پیش آتی ہے۔ اس وجہ سے طلبہ کو بھی سمجھنے میں مشکلات ہوتی ہیں، اور نتیجتاً نویں جماعت کےنتائج بہت خراب آئے اور صرف تین بچے ہی پاس ہو سکے‘‘۔ایک اور استاد کا کہنا تھا کہ ہمیں کورس بھی وقت پرمکمل کرنے کیلئے باقاعدہ مشق کرانے کی ضرورت ہوتی ہے جس کا SLO پورا کرنا ہوتا ہے اور جو ناممکن ہے ۔ اساتذہ کے مطابق حکومت نے درس و تدریس کا نیا طریقہ کار تو اپنا لیا لیکن اکثر اسکولوں کو وہ سہولیات مہیا کرنے میں ناکام رہی۔ مثلاً ملٹی میڈیا اور تحریری مواد فراہم کرنا۔ بچوں کے پاس محض ٹیکسٹ بکس ہی ہوتی ہیںبد قسمتی سےاکثر اسکول انٹرنیٹ کی سہولت سے بھی محروم ہیں۔
اساتذہ کی اکثریت نے مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ جماعتوں میں طلبہ کی بہت زیادہ تعداد، اساتذہ کی SLO کی بابت مناسب تربیت کا نہ ہونا، اور جدید ٹیکنالوجی کی عدم دستیابی جیسےعوامل عملدرآمد میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ جیسا کہ ایک ہائی اسکول کی معلمہ نے کہا کہ یہ نظام اگر ابتدائی یا پرائمری سطح پر صحیح طریقے سے شروع کیا جائے تو بچوں میں ابتدا ہی سے سمجھ بوجھ پیدا ہو سکتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ جب بھی والدین و معلمین کے اجلاس میں پوچھا جاتا ہے کہ کیا بچے گھرمیں تخلیقی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں؟ تو والدین کا جواب نفی میں ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس نظام سے ابھی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔ در حقیقت اساتذہ کی اپنی کاوشیں جاری ہیں لیکن مذکورہ مشکلات اس نظام کی کامیابی میں رکاوٹ ہیں۔ خیبرپختونخوا اور اسلام آباد میں اساتذہ کے ساتھ بڑے پیمانے پر تحقیق کرتے ہوئے ہم رکاوٹوں کے کچھ مسلسل نظر آنے والے پیٹرن دیکھنے لگے ہیں۔ ان چیلنجز کے پیش نظر یہ ضروری ہےکہ پالیسی ساز تحقیق کو پالیسی کی تیاری اور اس کے نفاذ دونوں مراحل میں شامل کریں۔ جیسے تحقیق آگے بڑھتی ہے نئی ضرورتیں خود بخود سامنے آتی رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ہماری اپنی تحقیق میں اساتذہ نے ایک سادہ سا ریسورس مانگا جو انکو پڑھانے میں مدد دے سکے۔ اس کے جواب میں، ہم نے اساتذہ اور پالیسی سازوں دونوں SLOs انہیں سےفیڈ بیک لے کر اس ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کی۔ اس طرح کی چھوٹی مگر اہم ضرورتیں وقت پر اور درست مقام پر تب ہی پہچانی جا سکتی ہیں جب پالیسی کا تعلق تحقیقی مضبوطی سے جڑا ہو۔
(مصنفین ڈاکٹر عظمیٰ دیان لیکچرر انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ، یونیورسٹی آف پشاور، اور ڈاکٹر عالیہ خالد سینئر ڈپارٹمنٹل لیکچرر شعبۂ تعلیم ہیں)