گزشتہ مہینوں میں فلسطین کی صورتحال نے ایک بار پھر دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ غزہ کی پٹی پر جاری تباہ کن اسرائیلی حملوں نے انسانی المیے کی نئی حدیں قائم کر دی ہیں۔ شہر کے شہر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکے ہیں، جہاں بچوں، عورتوں اور بے گناہ شہریوں کی شہادتیں روزانہ ایک نئے تکلیف دہ ریکارڈ کو چھو رہی ہیں۔ بنیادی ڈھانچہ، اسپتال اور تعلیمی مراکز سب نشانہ بن چکے ہیں۔ صحرائے تھل لیہ کے ممتازشاعر 'فراق حیدری یاد آئے’’انقلاب اور کیا لائینگے میر و ر ہبر ...دیکھتے ہی دیکھتے شہر کھنڈر ہواہے‘‘۔ بین الاقوامی برادری کی جانب سے جنگ بندی کی کمزور اور ناکافی کوششیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ عالمی اخلاقیات آج بھی مفادات کے تابع ہیں۔ یہ وہ خون آشام منظر ہے جہاں دنیا خاموش کھڑی دیکھ رہی ہے کہ ایک پوری قوم کو تاریخ کے سخت ترین امتحان سے گزارا جا رہا ہے۔ ان حالات میں یہ سوال پہلے سے کہیں زیادہ گہرا ہو گیا ہے :فلسطین پر مظالم کب بند ہونگے؟ دنیا میں اگر کوئی زخم ہے جو صدیوں سے تازہ ہے تو وہ فلسطین کا زخم ہے۔ یہ تاریخ کا وہ دُکھ ہے جو نسلیں بدلنے کے باوجود کم نہیں ہوا ۔ ہر عہد نے اسے مزید گہرا کیا۔ یہ مسئلہ اب جغرافیائی سرحدوں کا نہیں رہا پوری انسانی تہذیب کی اخلاقی شکست کا ہے۔ فلسطینی سرزمین کا ہر پتھر، گلی، ہر ملبے کے ڈھیر کے پیچھے ایک صدا ہے۔ وہ صدا جو دنیا کے ضمیر پردستک دے کراسےجھنجھوڑتی ہے۔ یہ وہ صدا ہے جو انسانیت کی خاموشی اور بےحسی پر سوالیہ نشان رکھتی ہے۔ فلسطین کا المیہ کسی ایک جنگ کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ ایک منظم تاریخی ناانصافی کا تسلسل ہے جسکی بنیاد 1917ء کے اعلانِ بالفور میں رکھی گئی۔ پھر 1948ء کی نکبہ نے اسے لاکھوں خاندانوں کی بے گھری اور جلاوطنی میں بدل دیا۔ یہ صرف گھروں کی تباہی کادردناک اوراذیت ناک المیہ نہیں ہے یہ ایک پوری قوم کی شناخت، تاریخ اور جڑوں کو مٹانے کی کوشش ہے۔ فلسطینی بچے جب ملبے سے اپنا ٹوٹا کھلونا ڈھونڈتے ہیں تو دراصل وہ عالمی ضمیر کی گمشدہ چابی تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ والدین ، بہنوں،بیٹیوں اور بیٹوں کے بین، سسکیاں، خاموشیاں اور بزرگوں کی آنکھوں میں ٹھہرا ہوا سوال گواہی دیتا ہے کہ عالمی طاقتوں نے طاقت کے سامنے اصولوں کو گروی رکھ دیا ہے۔ کیونکہ یہ وہی عالمی طاقتیں اورنام نہاد منصف ہیں جو بارہا امن امن کا درس دیتے اور پرفریب نعرے لگاتے ہیں مگر یہ امن ہمیشہ طاقتور کے بیانیے کے تحت شروع ہوتا ہے اور مظلوم کی قربانی پر ختم ہو جاتا ہے۔ ایک طرف بین الاقوامی قوانین کا احترام ہےتو دوسری طرف قابض قوت کو ہر حوالے سے حمایت فراہم کی جاتی ہے۔ دنیا جب ایک خطے کیلئے متحرک ہو جاتی ہے، تو فلسطین کی چیخیں شاید کسی ایسی فریکونسی پر آتی ہیں جسے عالمی سفارت کاروں کے حساس آلات سن نہیں پاتے۔ یہ دہرا معیار، یہ کھلی منافقت اقوامِ متحدہ سے لیکر عالمی عدالت تک ہر ادارے کی غیر جانبداری پر ایک گہرا سوال ہے۔ انصاف کا ترازو اگر واقعی توازن رکھتا تو فلسطین کے حق میں فیصلے محض قراردادوں کی زینت نہ بنتے، بلکہ زمین کی حقیقت بن جاتے۔ گو آج فلسطین میں گھروں کی چھتیں اُکھڑ چکی ہیں، مگر امید کے ستون آج بھی اپنی جگہ پر مضبوط ہیں۔ ظلم اپنی تمام تر شدت کے باوجود فلسطینیوں کے اندر سے مزاحمت کی روح کوئی نہیں نکال سکا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ظلم کی عمر لمبی نہیں ہوتی۔ آج کی نوجوان نسل، مشرق سے لیکر مغرب تک، طاقت کے بیانیے کو چیلنج کر رہی ہے۔ ڈیجیٹل میڈیمز نے وہ سچ عام کر دیا ہے جسے کئی دہائیوں تک روایتی میڈیا پردے میں رکھتا آیا۔ یہ تبدیلی کی لہر سست ضرور ہے، مگر یہ ضمیر کی بیداری کا ایک ناقابلِ واپسی سفر ہے۔ فلسطین پر مظالم کب بند ہوں گے؟ اس کا فیصلہ فلسطین کی زمین پر نہیں، بلکہ عالمی ضمیر کے ایوانوں میں ہو گا۔ یہ تب بند ہوں گے جب دنیا طاقت کو نہیں، انصاف کو اپنا معیار بنائیگی۔ جب انسانی خون کا وزن جغرافیائی سرحدوں، نسل یا مذہب سے آزاد ہو کر یکساں ہو جائیگا۔ فلسطین صرف ایک سرزمین نہیں ۔یہ آزادی اور عد ل کیلئے لڑی جانیوالی تاریخ کی سب سے پرانی جنگ ہے۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ صبح کاذب کے بعد حقیقی سورج ضرور طلوع ہوتا ہے۔کیا دنیا نے کبھی فلسطینیوں کے خون کی قیمت کو واقعی سمجھا، یا یہ ہمیشہ محض ایک تاریخی نمائشی سبق بنکر رہ جائیگا؟ جب طاقت کے بیانیے کو ضمیر پر ترجیح دی جائے تو انصاف کا کردار کہاں جاتا ہے، اور انسانی روح کس طرح چوراہے پر کھڑی رہ جاتی ہے؟ کیا وہ دن کبھی آئیگا جب مظلوم کی چیخ، ماؤں کے نوحے اور بچوں کی خوفزدہ آنکھیں صرف الفاظ میں نہیں، بلکہ عملی انصاف میں تبدیل ہو جائینگی؟ یہ آواز اورموقف صرف فلسطین کیلئےنہیں پوری انسانیت کیلئے درد و غم کا وہ نوحہ ہے جس پر ہرباشعور اورحساس آنکھ اشکبار ٫ دکھی ومغموم ہے۔