کہتے ہیں کہ سیاست بھی ایک طرح کی کرکٹ ہوتی ہے، بس فرق یہ ہے کہ کرکٹ میں امپائر نیوٹرل ہوتا ہے اور سیاست میں امپائر ہمیشہ یادداشت کی کمزوری کا مریض نکلتا ہے۔ کبھی کہتا ہے اوہ! میں نے تو نو بال دی ہی نہیں، اور کبھی کہتا ہے بھائی، میں نے تو آپ کو باہر ہی نہیں کیا، آپ خود پویلین بھاگ گئے تھے!
آج کل چونکہ ملک میں سیاسی گرمی سردیوں میں بھی 50 ڈگری پر کلکاری مار رہی ہے، اس لیے عوام ہر روز یہی پوچھ رہےہیں کہ’’عمران خان کا مستقبل کیا ہے؟‘‘جیسے پورا ملک نجومیوں کا دفتر بن چکا ہو اور ہر بندہ ہاتھ کی لکیروں میں صرف دو چیزیں ڈھونڈ رہا ہو۔اگلا الیکشن اور کپتان کی قسمت۔لیکن معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں۔ عمران خان کا مستقبل پوچھنا ایسا ہی ہے جیسے کسی بزرگ سے پوچھیں کہ’’چاچا جی، اب آپ شادی کب کر رہے ہیں؟وہ پہلے داڑھی کھجاتے ہیں، پھر عصا سنبھالتے ہیں اور جواب دیتے ہیں:بیٹا... مستقبل بعید میں کچھ بھی ہو سکتا ہے!
سیاست دانوں کا مستقبل ویسے بھی موسم کی طرح ہوتا ہےصبح دھوپ، دوپہر کو بادل، شام کو بارش اور رات کو ٹھنڈی ہوا کے ساتھ ایک نیا بیانیہ تیار۔عمران خان کا مستقبل آج کل ایسی مکھی کی طرح ہے جو کبھی گلاس کے اندر گھومتی ہے، کبھی باہر نکلتی ہے، کبھی واپس چلی جاتی ہے۔ عوام حیران ہیں کہ یہ مکھی باہر جانا چاہتی ہے یا گلاس کے اندر نئی حکومت بنانا چاہتی ہے۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان کی سیاست اب ’ریٹائرڈ ہرٹ‘ ہو چکی ہے، مگر پھر کوئی نہ کوئی رہنما آ کر کہہ دیتا ہے۔نہیں جی! ابھی تو گیم شروع ہوئی ہے!یعنی ہر کوئی اپنی اپنی خواہش کے مطابق تبصرہ فرما رہا ہے۔
اگر مستقبل کی بات کریں، تو کپتان کے چاہنے والوں کی کیفیت بالکل ویسی ہے جیسے شادی کے بعد شوہروں کی ہوتی ہےہر مصیبت کو کہہ رہے ہوتےہیں۔نہیں نہیں...سب بہتر ہو جائے گا... بس تھوڑا صبر، تھوڑا یقین!
دوسری طرف مخالفین کا عالم ایسا ہے جیسے پلاؤ کی دیگ پر بیٹھا باورچی، جو ہر پانچ منٹ بعد ڈھکن اٹھا کر خوشبو سونگھتا ہے کہ کہیں کچھ جل تو نہیں رہا۔ وہ چاہتے ہیں کہ خان صاحب کا مستقبل جل ہی جائے تاکہ ان کے ٹھنڈے مستقبل میں کچھ گرمجوشی پیدا ہو جائے۔
اب کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان دوبارہ واپس آ جائیں گے، کچھ کہتے ہیں وہ واپس آئیں گے تو بھی گول پوسٹ بدل جائے گا۔ لیکن پاکستانی قوم کی امید کا معیار دیکھیں!اگر آپ کہیں’’خان صاحب جلدی واپس آئیں گے‘‘تو وہ فوراً کہتی ہے۔جلدی؟ کتنی جلدی؟۔اگر آپ کہیں:تھوڑا وقت لگے گا۔تو قوم پوچھتی ہے:کتنا وقت؟یعنی قوم کو بالکل ویسی بےچینی لاحق ہے جیسی دولہا کو نکاح کے بعد فون کر کے بتائی جاتی ہے:بھائی، رخصتی دو گھنٹے لیٹ ہو گی۔
سیاست کے مکینکس بھی عجیب ہیں۔ کبھی فالو آن مل جاتا ہے، کبھی ڈی آر ایس میں ناٹ آؤٹ دے دیا جاتا ہے، کبھی پوری ٹیم باہر ہوتی ہے مگر کپتان پھر بھی کہتا ہے:میچ ابھی باقی ہے!
عوام بھی اس صورتِ حال میں روز نئی پیشن گوئی کرتےہیں۔بازار میں سبزی فروش سے لیکر ڈاکٹر تک ہر کوئی ماہرِ سیاست، ماہرِ مستقبل بینی اور ماہرِ معیشت بنا بیٹھا ہے۔سبزی والا ٹماٹر تولتے تولتے بتا رہا ہوتا ہے:بھائی، اگلا چیف وہی لائے گا!ڈاکٹر کان کا معائنہ کرتے کرتے کہتا ہے:خان صاحب کا سیاسی بخار ابھی اترا نہیں!
اور رکشے والا پیچھے شیشے پر لکھ دیتا ہے:خان آئے گا... سو دفعہ آئے گا!اگر آپ گاڑی میں بیٹھے ریڈیو لگا دیں تو ہر تجزیہ نگار ایسے بات کر رہا ہوتا ہے جیسے وہ کل رات خان صاحب کے خواب میں بیٹھا ہوا تھا اور پورا مستقبل اسی نے پلان کیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ عمران خان کا حقیقی مستقبل کیا ہے؟خان صاحب کا مستقبل وہی ہے جو پاکستان کی سیاست کا ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے:غیر متوقع، دلچسپ، حیران کن اور کبھی کبھی ایسا کہ بندہ قہقہہ لگائے یا سر پیٹ لےدونوں ہی امکانات برابر ہیں۔خان صاحب کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ اگر وہ جیل سے ایک ویڈیو پیغام دیں جس میں صرف یہ کہیں:میں ٹھیک ہوں۔تو انکے چاہنے والے فوراً ویڈیو کو اس طرح اینالائز کرنا شروع کر دیتے ہیں جیسے نساّبین قدیم پاپائرس کی تشریح کر رہے ہوں۔دیکھا؟ انہوں نے ’ٹھیک‘ کے بعد دو سیکنڈ رکے... اس کا مطلب بہت بڑا پیغام ہے!
دوسری طرف مخالفین اس دو سیکنڈ میں بھی سازش تلاش کر لیتے ہیں:یہ وقفہ ثبوت ہے کہ دراصل وہ ٹھیک نہیں ہیں!
سیاست دانوں کا مستقبل پوچھنا ایسا ہے جیسے دلہن کی رخصتی کے بعد ساس جی سے پوچھنا کہ بہو کب ہنستی ہے؟وقت لگتا ہے، حالات بنتے بگڑتے ہیں، اور پھر کوئی نئی خبر آ جاتی ہے۔جس طرح افطاری سے پہلے اچانک بھوک جاگتی ہے، ویسے ہی پاکستانی سیاست میں بھی اچانک واپسیوں کا موسم شروع ہو جاتا ہے۔ کل اگر کوئی کہہ دے کہ خان صاحب واپس آرہے ہیں تو عوام اس یقین سے مان لیں گے جیسے دودھ والے کا وعدہ ہوتا ہے کہ اس بار پانی تھوڑا کم ہے۔
اگر براہِ راست نہ بھی آئے تو سیاست ویسے بھی ریموٹ کنٹرول موڈ پر چل سکتی ہے۔ ہمارے ملک میں ریموٹ کنٹرول سے ٹی وی بدلنے کے علاوہ حکومتیں بھی بدلتی رہی ہیں۔ اس لیے کپتان چاہے میدان میں نہ بھی ہوں، تماشائی پھر بھی انہی کا نام لے کر نعرے لگاتے رہیں گے۔یہ بھی ممکن ہے کہ عمران خان سیاست سے بڑھ کر اپنی شخصیت کے استعارے میں بدل جائیں۔ لوگ کہیں گے: امید چاہیے؟ عمران خان والے صبر سے کام لو!مقصد نہیں مل رہا؟ عمران خان جیسی ضد پیدا کرو!یعنی وہ فرد سے زیادہ فلسفہ بن جائیں۔
اور پھر، اگر مستقبل ایسا بھی ہو جس میں سیاست دان بدل جائیں، سیاست بدل جائے، حکومتیں بدل جائیں اور سب لوگ تھک کر کہا کریں۔چلو بھائی اب کچھ نیا کرتے ہیں!
تو بھی مسئلہ نہیں... عوام کے پاس ہمیشہ ایک آخری جملہ ہوتا ہے:خان آئے گا!