میں جب بھی برطانیہ جاتی ہوں تو وہاں کے ٹیکس نظام اور قانون کے احترام کی عادت مجھے بے حد متاثر کرتی ہے۔ ایک ماہ پہلے کارڈف (ویلز) میں بھتیجی کے ساتھ دو ہفتے گزارنے کا موقع ملا تو روزانہ ہی محسوس ہوا کہ ٹیکس کی ادائیگی کا نظام کس قدر شفاف، آسان اور مؤثر ہے۔ ہم یہاں ’’چھوٹے بڑے سب برابر ہیں‘‘ کا نعرہ لگا کر یا تقریروں اور مضامین میں اس کا ڈھنڈورا پیٹ کر خوش ہو لیتے ہیں، مگر انگریز اسے عملی سطح پر برت کر دکھاتے ہیں۔تفریحی مقامات پر میل دو میل دور پارکنگ دستیاب ہوتی ہے اور ہر جگہ گھنٹوں کے حساب سے فیس مشین کے ذریعے ادا کرنا پڑتی ہے مگر کوئی شکوہ کرتا دکھائی نہیں دیتا ۔ سڑکوں پر کہیں کوئی پولیس اہلکار موجود نہیں ہوتا، مگر معمولی سی کوتاہی بھی جرمانے کا سبب بن جاتی ہے۔ میری بھتیجی نے ایک روز ساڑھے پانچ بجے گاڑی پارک کی، ایک گھنٹے کی پارکنگ فیس بھی ادا کی مگر مشین سے نکلی رسید گاڑی کے شیشے پر چسپاں کرنا بھول گئی۔ چھ بجنے سے پہلے ہی اس پر پچیس پاؤنڈ کا جرمانہ ہو چکا تھا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ جرمانہ کرنے والے پر غصہ کرنے کی بجائے اپنی کوتاہی پر پشیمان ہوتی رہی کہ وہ رسید لگانا کیوں بھول گئی۔یہی شعور قوموں کو مہذب بناتا ہے۔
ہم ایک پنجابی فلم دیکھنے گئے تو نوٹ کیا کہ جتنی رقم فلم کے ٹکٹ کی تھی، اتنی ہی پارکنگ فیس تھی۔ بازار جائیں ،ریسٹورنٹ میں کھانا کھائیں، چائے پئیں یا کسی تفریحی مقام پر سیر کیلئے جائیں ہر جگہ پارکنگ فیس کی صورت میں ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ لوگوں کی اسی عادت سے وہاں کا نظام چلتا نہیں، دوڑتا ہے۔
پاکستان میں صورتِ حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ لوگ قانون کی پابندی کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ بیرونِ ملک قوانین کی سختی سے پیروی کرنے والے بھی یہاں آکر لاقانونیت سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ بنیادی سبب یہ ہے کہ ہمارے گھروں اور تعلیمی اداروں میں قانون کے احترام کو اولیت نہیں دی گئی۔ انگریز کوئی غیر معمولی ذہین قوم نہیں، مگر ان کی کامیابی مربوط نظام بنانے اور اس پر بلا امتیاز عمل کرنے میں ہے۔پنجاب حکومت نے ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کا جو سلسلہ شروع کیا ہے، وہ لائقِ تحسین ہے۔ لیکن افسوس کہ کچھ باشعور افراد بھی طلبہ کے لیے نرمی اور رعایت کے مطالبے میں پیش پیش نظر آئے۔ نوجوانوں کو ضابطے سکھانے چاہئیں، حکومت یا پولیس کو نہیں۔ والدین، اساتذہ اور سماج کو بچوں کی تربیت میں قانون کے احترام اور نظام کی افادیت پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ میں خود اگر کسی اٹھارہ سال سے کم عمر رشتے دار کو گلی میں موٹر سائیکل چلاتے دیکھوں تو بچے کو سمجھانے کے ساتھ والدین سے بھی ضرور گلہ کرتی ہوں کیونکہ یہ صرف قانونی نہیں، جان کا معاملہ بھی ہے۔
پاکستان میں ٹریفک قوانین پر مؤثر عملدرآمد کیلئے ضروری ہے کہ اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں باقاعدہ تربیتی سیشنز اور ورکشاپس کا انعقاد کریں۔ نصاب میں ٹریفک قوانین کی تعلیم شامل کی جائے۔ میڈیا پر مستقل آگاہی مہم چلائی جائے، حادثات اور قانون شکنی کے نتائج سے متعلق ڈاکومنٹریز اور اشتہارات دکھائے جائیں۔
بغیر ہیلمٹ، غلط پارکنگ، اوور اسپیڈنگ اور کم عمر ڈرائیونگ پر سخت اور فوری جرمانے کیے جائیں۔ بار بار خلاف ورزی پر لائسنس معطل یا گاڑی ضبط کی جائے۔ اہم شاہراہوں پر سی سی ٹی وی اور ای چالان نظام کو مزید فعال بنایا جائے۔ کم عمر ڈرائیور کے والدین کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ساتھ ہی ٹریفک پولیس کو بھی رعب اور سختی کی بجائے نرمی، شائستگی اور پیشہ ورانہ انداز اپنانے کی تربیت دی جائے۔ رشوت کے کلچر کے خاتمے کیلئے مؤثر مانیٹرنگ ضروری ہے۔ بازاروں اور مصروف سڑکوں پر گھنٹوں کے حساب سے پارکنگ فیس کو عام کیا جائے تاکہ نظام میں شفافیت اور ذمہ داری پیدا ہو۔قانون پر عمل صرف حکومت کی نہیں، معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔ جب تک ہم فرداً فرداً نظم، اصول اور احترام کو زندگی کا حصہ نہیں بناتے، تب تک ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہونا محض خواب ہی رہیگا۔ خود کو اور دوسروں کو محفوظ بنانے کیلئےقانون کی پابندی کو فرض سمجھنا ہوگا۔