ممکن ہے کہ پاکستان کے پہلے فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان خود ہی ذہین ہوں اور صاحبِ مطالعہ بھی مگر ان کے اچھے کاموں کا کریڈٹ عام لوگ قدرت اللہ شہاب کو دیتے ہیں یا پھر الطاف گوہر کو بیچ بیچ میں سر عبدالقادر کے بیٹے منظور قادر کے اثرات کا بھی دعویٰ کیا جاتا ہے جنہیں ایوب خان نے وزیر خارجہ بنایا تھا اور پھر ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بھی ۔اسی طرح کچھ لوگ ان کے وزیرِ قانون ایس ایم ظفر کا بھی ذکر کرتے ہیں،تاہم اتنا معلوم ہے کہ جنرل محمد ایوب خان نے پاکستان رائٹرز گلڈ بنائی تھی جس نے مشرقی اور مغْربی پاکستان کے مابین ادیبوں شاعروں کی آمد و رفت کو ارزاں کیا،پلاٹ اور امداد بھی دی اور انکی کتابوں پر انعامات بھی دئیے گئے ۔ایوب خان کے زمانے میں بائیس خاندانوں کے عروج پر بھی کتابیں لکھی گئیں جن میں آدم جی،سہگل ، اصفہانی اور حبیب اللہ نمایاں تھے ان کے حوالے بینک بھی کئے گئے اس لئے جب ادبی انعامات کا سلسلہ شروع ہوا توآدم جی ایوارڈ کا زیادہ چرچا ہوا جب عام فکری مغالطے کے مصنف علی عباس جلالپوری نے یہ کہہ کر آدم جی ایوارڈ لینے سے انکار کیا کہ میں سرمایہ داری نظام کا مخالف ہوں ایک سرمایہ دار سے کیسے انعام لے لوں؟ْ مگر حبیب بینک کی ملازمت سے علیحدہ کئے جانیوالے آغا حسن عابدی نے متحدہ عرب امارات کے شیخ زید النیہان کے سرمائے سے بینکوں میں سے یو بی ایل قائم کیا اور پھر جب مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا تو انہوں نے بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹر نیشنل بنایا اور تعلیم ،سماجی خدمت اور ادب پروری کی کئی مثالیں قائم کیں۔ اس بینک نےمشتاق احمد یوسفی جیسا علم و ادب کا شیدائی اور پردے میں رہ کر بہت سے لوگوں کی امداد کرنیوالی ہستی کو ’’پیدا‘‘ کیا جب بی سی سی آئی کو امریکہ نے گرا رکھا تھا یوسفی صاحب آغا حسن عابدی کی ہدایت پر لندن میں قائم اردو مرکز کو مالی اعتبار سے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے تھے ،انہوں نے پروین شاکر ٹرسٹ کی بھی اعانت کی اور کوشش کی پروین شاکر کی وفات کے بعد انکے بیٹے مراد کی تعلیم مکمل ہو ۔اسی طرح کے بہت سے کارخیر انہوں نے کئے۔ بہت لوگوں کو معلوم ہے کہ پاکستان کے ارباب مسند یوسفی صاحب کی بہت عزت کرتے تھے کہ وہ اپنے لئے کچھ نہیں مانگتے تھے نہ ستارہ نہ امتیاز نہ چندہ اور نہ ہی کوئی اعزاز مگر یہ جو اکادمی ادبیات پاکستان نے دس لاکھ روپے کاکسی قلم کار کی ادبی خدمات کی پذیرائی کیلئے کمالِ فن ایوارڈ قائم کیا تو یہ یوسفی صاحب کی ہی تجویز تھی تب یہ ایوارڈ پانچ لاکھ کا تھا اور اس کیلئے تین لوگوں کی کمیٹی بنائی گئی جن میں سینئر ترین احمد ندیم قاسمی تھے دوسرے انتظار حسین اور تیسرے مشتاق احمد یوسفی۔ کمیٹی کے پہلے اجلاس میں یوسفی صاحب نے اصرار کیا کہ قاسمی صاحب کچھ دیر کیلئے کمرے سے باہر چلے جائیں تاکہ پہلے کمال فن ایوارڈ کی نامزدگی ہو سکے بتانے کی ضرورت نہیں کہ پہلا کمال فن ایوارڈ معتبر ہوا جب احمد ندیم قاسمی صاحب کو ملا دوسرا اسی طرح انتظار حسین کو مگر تیسرے برس یوسفی صاحب نے لینے سے معذرت کی منصفین کا بڑا پینل بنا بہر طور جب یوسفی صاحب کو یہ ایوارڈ دیا گیا تو انہوں نے یہ ایک ادارے کو عطیہ کر دیا جو ان ادیبوں کی کتابیں چھاپتا ہے جن کے پاس اپنی پہلی کتاب چھاپنے کے وسائل نہیں۔ یہ سب باتیں ممتاز مفتی کے ناول ’’علی پور کا ایلی‘‘ کے سرورق پر لکھے ایک فقرے سے یاد آئیں ۔یہ وہ ناول ہے جسے آدم جی ادبی ایوارڈ نہیں دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ غریب منصف جو آپس میں ایک دو باتیں رازداری سے کرتے ہیں وہ کوچہ و بازار میں پہنچ جاتی ہیں۔اب ماجرا یہ تھا کہ مفتی صاحب سے ان کے کسی صاحب حیثیت دوست نے کہا کہ اس ناول کی ضخامت کو سمیٹو اور فلاں تاریخ تک اسے اس ایوارڈ کیلئے پیش کردو ،ممکن ہے عبداللہ حسین کی اداس نسلیں اور ممتاز مفتی کے علی پور کے ایلی کا موازنہ کرتے ہوئے سید وقار عظیم نے مفتی صاحب کے فکشن کی زبان پر پنجابی زبان کا غلبہ دیکھا ہو اس طرح اورینٹل کالج کی سیاست بھی چل پڑی۔ گویا منصف سے جب کوئی مصنف بگڑتا ہے تو وہ یوں بھی کرتا ہے۔ انعام دینے والے ادارے بھی یہ بتانا چاہتے ہیں یہ یہ جیوری کے اراکین ہیں،تاہم یہ لوگ فرشتے کیوں نہ ہوں ان کے فیصلوں پر اعتراض ہو سکتا ہے ،یہ تو خدا کا شکر ہے کہ اکادمی ادبیات کے انعامات ہیں،مجلس ترقی ادب،بزم اقبال اور دیگر اداروں کےبھی ہیں،اس کے باوجود کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ سبھی انعام انہی کی دہلیز پر رکھے جائیں۔ اور تو اور صدر ٹرمپ نے کھلم کھلا کہا کہ نوبل امن انعام مجھے ملنا چاہئے کہ جتنے بھارت کے طیارے پاکستان نے گرائے اتنی جنگیں میں نے رکوائی ہیں، پھر پاکستان سمیت کئی ملکوں نے انہیں نامزد بھی کر دیا مگر وہ انعام کسی اور کو مل گیا،صدر ٹرمپ علیل ہو گئے مگر وہ اسی کے بارے میں سوچتے رہے اور کہا جسے یہ انعام دیا گیا ہے وہ اس سے خوش نہیں ،گویا اس انعام کو پاکر جس طرح میں تیر و تفنگ کی دنیا کو راگ رنگ کی دنیا میں بدلتا کسی اور کیلئے ممکن نہیں۔ وہ جو کہتے ہیں کہ اللہ شکر خورے کو شکر دیتا ہے اور وافر دیتا ہے فیفا نے امریکہ کے صدر کو امن کا انعام دے دیا ہے۔ بے شک دنیا کی فٹ بال ٹیموں میں ہم بہت پیچھے ہیں مگر ہمارے سیالکوٹ کے کاریگر فٹ بال بناتے ہیں کبھی نہ کبھی ہمارے کسی کاریگر کے ہنرکا اعتراف فیفا بھی کرے گا۔