پاکستان کی دفاعی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہو چکا ہے۔ گزشتہ روز صدرِ پاکستان نے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کو ملک کا پہلا چیف آف ڈیفنس فورس مقرر کردیا۔ یہ فیصلہ نہ صرف ادارہ جاتی اصلاحات کی سمت ایک بڑا قدم ہے بلکہ مستقبل کے چیلنجز کو سامنے رکھ کر قومی سلامتی کے پورے ڈھانچے کی ازسرِ نو تعمیر کی طرف اشارہ بھی ہے۔ تینوں مسلح افواج کی قیادت کو ایک مربوط اسٹرٹیجک سمت دینا وقت کی ضرورت بھی تھی اور حالات کا تقاضا بھی۔ پاکستان چونکہ روایتی اور غیر روایتی دونوں طرح کے خطرات سے گزر رہا ہے، اس لئے ایسا منصب وہ خلا پُر کرسکتا ہے جس کی جانب ماہرین برسوں سے توجہ دلا رہے تھے۔
پاکستان کو گزشتہ دو دہائیوں میں دہشت گردی کا سامنا رہا ہے۔ دشمن کی حکمت عملی کبھی اندرونی حملوں کی صورت میں سامنے آئی، کبھی بارڈر کی صورت میں اور کبھی ہائبرڈ جنگ کے طور پر، جس میں اطلاعات، معیشت، سوشل میڈیا اور سیاسی عدم استحکام کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ صرف روایتی عسکری ڈھانچے کے ذریعے ان تمام خطرات کا یکساں اور مؤثر جواب دینا ممکن نہیں رہا۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ بری، بحری اور فضائی افواج کی اسٹرٹیجک سمت، انٹیلی جنس روابط، ٹیکنالوجی کے استعمال، اور فیصلہ سازی کی رفتار کو ایک متحد نظام کے تحت لایا جائے۔ چیف آف ڈیفنس فورس کا منصب یہی ہم آہنگی فراہم کرنے کیلئے تشکیل دیا گیا ہے۔
فیلڈ مارشل عاصم منیر پہلے ہی ملک کے چیف آف آرمی اسٹاف ہیں اور اب وہ قومی دفاع کی تینوں سطحوں زمینی، سمندری اور فضائی کی مجموعی اسٹرٹیجک نگرانی بھی انجام دیں گے۔ یہ منصب سروس چیفس کے اختیارات میں مداخلت نہیں کرتا بلکہ ان کے درمیان اس تال میل کو مضبوط کرتا ہے جو جدید جنگ کے لئے ناگزیر ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں اس ماڈل کا نفاذ برسوں پہلے ہو چکا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور کئی یورپی ملکوں میں مشترکہ عسکری کمانڈ سسٹم اس اصول پر قائم ہے کہ دشمن اب ایک جہت میں نہیں آتا، بلکہ اس کا مقابلہ بھی ہمہ جہتی حکمتِ عملی سے ہی ممکن ہے۔
پاکستان کا جغرافیہ، سیاسی ماحول اور علاقائی حالات اسے ایسے خطرات سے دوچار کرتے ہیں جو مسلسل اپنی شکل بدلتے رہتے ہیں۔ افغانستان کے حالات، بھارت کی جارحیت، سمندری راستوں کی حساسیت، داخلی شدت پسندی، سرحد پار دہشت گرد نیٹ ورکس، اور عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی سائبر جنگ یہ سب ایسے چیلنج ہیں جن کے لئے صرف ایک روایتی کمان کافی نہیں ہوتی۔ قومی سلامتی کے لئے ایک ایسے فورم کی ضرورت تھی جو دفاعی پالیسیوں کو یکجا کرے، تیز رفتار فیصلے لے، اور تمام سروسز کی صلاحیتوں کو ایک سمت میں لگا سکے۔ چیف آف ڈیفنس فورس اسی دور کی ضرورت پوری کرتا ہے۔یہ فیصلہ اس تناظر میں بھی اہم ہے کہ پاکستان اس وقت ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے جہاں معاشی استحکام، سیاسی نظم اور دفاعی تیاریوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ دہشت گرد گروہوں کا دوبارہ سرگرم ہونا، سرحدوں پر دباؤ، اور بین الاقوامی سطح پر بدلتی ہوئی صف بندیاں، پاکستان سے مضبوط دفاعی پوزیشن اور بہتر ہم آہنگی چاہتی ہیں۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کا وسیع تجربہ، انٹیلی جنس پس منظر اور عسکری قیادت میں تسلسل، اس تقرری کو مزید تقویت دیتے ہیں۔یہ منصب پاکستان کی دفاعی پالیسی کو صرف آج نہیں بلکہ آنے والے برسوں میں بھی مستحکم بنانے میں کردار ادا کرے گا۔ ریاستیں وہی کامیاب ہوتی ہیں جو دفاعی اداروں کو جدید خطوط پر استوار کریں، ایک متحد حکمتِ عملی اپنائیں اور نئے خطرات کا اندازہ بروقت لگائیں۔ چیف آف ڈیفنس فورس کی تقرری اسی بڑے وژن کا حصہ ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان ایک مربوط، منظم اور مستقبل شناس نظام کے تحت اپنے دفاع کو مضبوط بنا سکے۔
پاکستان کو تاریخ نے بارہا یہ سکھایا ہے کہ مضبوط دفاع صرف ہتھیاروں سے نہیں بلکہ نظم، ہم آہنگی، بروقت فیصلوں اور متحد وژن سے بنتا ہے۔ نئے عہد کا تقاضا یہی ہے کہ پاکستان اپنے دفاعی ڈھانچے کو جدید دنیا کے مطابق استوار کرے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی بطور چیف آف ڈیفنس فورس تعیناتی اسی عمل کا آغاز ہے اور اس سے یہ پیغام واضح جاتا ہے کہ پاکستان اپنی سلامتی کے تمام تقاضوں کو سنجیدگی سے دیکھتا ہے، ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کو تیار ہے، اور ایک محفوظ، مضبوط اور مستحکم مستقبل کی طرف بڑھ رہا ہے۔