• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ بات ہے 1981کی ۔ حکم ملا بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو فوری گرفتار کر لیا جائے۔ بھٹو کی تاریخی رہائش گاہ 70کلفٹن پر چھاپہ پڑا تو پتا چلا بینظیر وہاں نہیں ہیں البتہ بیگم صاحبہ کو نظر بند کر دیا گیا اور بی بی کی تلاش میں پورے کراچی میں چھاپوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ گلشن اقبال کے ایک گھر سے جہاں پی پی پی کی سینئر رہنما اور سابقہ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر اشرف عباسی رہتی تھیں بی بی کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس وقت صفدر عباسی بہت چھوٹے تھے ۔ جب حکام بالا کو پتا چلا تو دوسرا حکم آیا، اس کو سکھر جیل لے جاؤ، نہ کوئی FIR نہ کوئی مقدمہ۔ اس سفر کی داستان سناتے وقت بی بی کی آنکھوں میں اکثر آنسو آ جاتے تھے خاص طور پر جو کچھ ’سکھر جیل‘ میں ہوا۔ عورت ہونے سے لے کر سیاست کرنے تک جس طرح کی زبان انکی ذات، اور سیاسی سوچ کے حوالے سے استعمال ہوئی وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ یوں بھی ہوا کہ سیاست کو غیر سیاسی کر کے ’مائنس بھٹو‘ کر دیا جائے۔1985کے غیر جماعتی انتخابات اس کی عملی شکل تھے مگر انہی میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے برملا قومی اسمبلی کے فلور پر کہا ، ’’جمہوریت اور مارشل لا ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔‘‘

پتا نہیں ہم تاریخ سے سبق کیوں نہیں سیکھتے۔ کتنا آسان ہے کسی کو غدار کہنا، سیکورٹی رسک قرار دینا، قومی سلامتی کیلئے خطرہ کہنا اور اب تو بات ’ذہنی مریض ‘ کہہ کر مخاطب کرنے تک آ گئی۔ کیا یہ سب باتیں، اصطلاحیں۔ ہم نے پہلے نہیں سنیں، بس فرق ہے تواتنا کہ جو بات صرف اخبار یا رسالے تک رہتی تھی اب سر عام ہے سوشل میڈیا کی وجہ سے۔ ISI کے سابق سربراہ جنرل حمید گل مرحوم نے میرے ساتھ ایک انٹرویو میں یہ اعتراف کیا کہ، ’’بے نظیر کو قومی سلامتی کیلئے خطرہ اور سیکورٹی رسک سمجھنا ریاست کی غلطی تھی میں نے ان کو ایک محب وطن پایا۔‘‘ ان کا یہ اعتراف اپنی جگہ مگر بی بی کو کبھی مکمل سیاسی اسپیس نہیں ملی۔ سیاست میں ان سے بہت غلطیاں بھی ہوئیں اور غلط فیصلے بھی مگر بی بی نے ہار نہیں مانی، ایسے کو تو پھر ’شہید‘ ہونا ہی پڑتا ہے اور اب انکی 15ویں برسی آ رہی ہے 27دسمبر کو ۔کیا خود میاں نواز شریف کو ’مائنس‘ کرنے کی باتیں نہیں ہوئیں۔ پہلے انہیں بھٹو کی سیاست کو مائنس کرنے کیلئے لایا گیا پھر خود انہیں مائنس کرنےکیلئے عمران خان کو لایا گیا اور آج خان کو ’مائنس‘ کرنے کیلئے انہیں ہی استعمال کیا جا رہا ہے۔ کیا 2002میں دونوں، نواز شریف اور بے نظیر کو سیاست سے باہر کرنے کی پالیسی کامیاب ہوئی اور پھر اسی جنرل پرویز مشرف نے بے نظیر کو پلس کر کے نواز شریف کو مائنس کرنے کا تجربہ کیا اور پھر جب دونوں تجربات ناکام ہو گئے اور دونوں نے ’میثاق جمہوریت‘ کر لیا تو تیسرے آپشن کیلئے اسی عمران کا انتخاب کیا جس کو جنرل مشرف نے 2002میں گجرات کے چوہدریوں کے مقابلے میں ترجیح نہیں دی تھی اور خان نے مایوسی اور غصےمیں اس کا ساتھ چھوڑ دیاتھا۔

آج عمران پاکستان کا سب سے مقبول لیڈر ہے یہ بات کسی کو اچھی لگے یا بری اور وہ ایک سیاسی عمل سے باہر بھی ہونے والا تھا جب پھر ایک ’جنرل صاحب‘ نے انہی روایتی سیاسی جماعتوں کے ذریعہ عدم اعتماد کی تحریک سے عمران کو آؤٹ کر کے دراصل سیاست میں پھر اڑان دے دی۔ اب نہ جنرل باجوہ ہیں نہ جنرل فیض مگر سیاست کو ناقابل تلافی نقصان ہو گیا ہے۔ 2008سے ہی سہی اگر سیاسی عمل میں رکاوٹ نہ ڈالی جاتی تو عین ممکن تھا 2018میں مسلم لیگ کی ہی حکومت بنتی مگر تحریک انصاف ایک جاندار اپوزیشن رہتی۔ اسی طرح اگر 2024میں تحریک انصاف کے کلین سوئپ کو تسلیم کر لیا جاتا تو کوئی قیامت نہ آ جاتی۔ تاریخی طور پر حکومت میں آنے کے بعد مقبولیت میں کمی آتی ہے کیونکہ بڑے بڑے وعدہ پورے نہیں ہو پاتے۔ پی پی پی کو پہلی بار 2008سے 2013 تک پانچ سال ملے تو پنجاب سے پارٹی فارغ ہو گئی۔

لہٰذا سیاست میں ’مائنس‘ کوئی چیز نہیں ہوتی۔ جو آج ’مائنس‘ یعنی ہار جاتا ہے وہ کل پلس یعنی جیت سکتا ہے۔ یقینی طور پر آج سیاست میں تلخی بہت ہے کیونکہ ایک جماعت سمجھ رہی ہے کہ اس کو مکمل طور پر دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ ان سے جماعت کا نام اور انتخابی نشان لے لیا گیا وہ پھر بھی الیکشن جیت گئے اب ’مائنس‘ کی باتیں۔ کیا الطاف حسین کو مائنس کر کے ایم کیو ایم (پاکستان) حقیقی معنوں میں موجود ہے یا ریمورٹ کنٹرول ہے۔

مجھے یہاںایک تاریخی پریس کانفرنس یاد آرہی ہے جو 1995میں کراچی میں وزیر داخلہ جنرل نصیراللہ بابر نے اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں کی تھی ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کے حوالے سے۔ میں نے اپنی صحافتی زندگی میں صحافیوں کے ایسے سخت بلکہ زیادتی کی حد تک یک طرفہ سوالات نہ دیکھے نہ سنے۔ مگر کیا کمال تھا بابر صاحب کا وہ دو گھنٹے جوابات دیتے رہے۔ جب سب چپ ہوئے تو مسکراتے ہوئے بولے، ’’کیوں بھائی سوالات ختم ہو گئے اور یوں انہوں نے پوری فضا ہی تبدیل کر دی۔‘‘

سیاست ایک عمل کا نام ہے۔ سیاست اچھی بھی ہوتی ہے اور بری بھی۔ کوئی بھی جمہوری سوچ رکھنے والا موجودہ سیاسی جماعتوں یا بیشتر سیاستدانوں کو جمہوری اقدار کو نقصان پہنچانے کا ذمہ دار سمجھتاہے۔ ان جماعتوں میں جمہوریت بھی نہیں ہےمگر یہ سب کام ان کا ہے جن کو آئین سیاست کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ بس ان کو ہی اور انہیں ووٹ دینے یا نہ دینے والوں کو فیصلہ کرنے دیں۔ یاد رکھیں نہ درباری سیاستدان عوام میں جگہ بنا پائے نہ درباری ’صحافی‘۔ آپ پورے ’نظام‘ کو بدل ڈالیں سیاست پھر بھی ’مائنس‘ نہیں ہو گی۔

تازہ ترین