بھارتی میڈیا ہمیشہ کی طرح پاکستان کے اداروں، بالخصوص پاک فوج کیخلاف زہر اگلنے میں مصروف ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی قوم کا اپنی فوج پر مکمل اعتمادہے، اور اس وقت کے سپہ سالار فیلڈ مارشل عاصم منیر پر ہمارے یقین کی بنیاد یہ ہے کہ وہ پاکستان کی سالمیت کیلئے کس قدر فیصلہ کن کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہی اعتماد بھارت کی آنکھ میں سب سے زیادہ کھٹک رہا ہے۔گزشتہ روز ڈی جی آئی ایس پی آر کی سخت ترین پریس کانفرنس نے جہاں اندرونی انتشار پھیلانے والوں کو آئینہ دکھایا، وہیں پاکستان دشمن قوتوں کو بھی ایک واضح پیغام دیا ہے۔ عمران خان کو نہ صرف ذہنی مریض بلکہ موجودہ حالات میں ’’سکیورٹی تھریٹ‘‘ قرار دینا، انکی سیاسی پالیسیوں پر سوالات اٹھانا اور چند صحافیوں کی جانب سے ناقابلِ یقین حد تک کھلے سوالات کے جواب دینا ،یہ ثابت کرتا ہے کہ ادارے پہلی بار پوری وضاحت سے قومی بیانیہ قوم کے سامنے رکھ رہے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان ایک مقبول لیڈر ہیں، اس سے انکار ممکن نہیں۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ انکے اردگرد موجود غیر سنجیدہ لوگ ہی ان کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ یہ نقصان پارٹی ورکرزکو بھی ہوا کہ ان کے پاس کوئی گائیڈ لائن نہیں ۔ جہاں ریاست کے وقار اور سالمیت کی بات ہو، وہاں کسی قسم کا سمجھوتہ ممکن نہیں۔خان صاحب کو اپنی بے پناہ عوامی مقبولیت کو قوم کی بہتری اور استحکام کی طرف موڑنا چاہیے تھا، کیونکہ یہی وقت تھا کہ وہ اس ملک کیلئے حقیقی لیڈر ثابت ہو سکتے تھے۔ لیکن بدقسمتی سے سیاسی غلطیاں، مشیروں کی نااہلی اور ذاتی ردعمل نے ان کی اپنی سیاست کو ہی نقصان پہنچایا۔
آج بھارت شدید سفارتی دباؤ اور مودی حکومت کی ناکام خارجہ پالیسی کا شکار ہو کر عالمی تنہائی کی طرف جا رہا ہے۔ کبھی روس کے پیوٹن کی دعوت کبھی افغان بیانیہ، بھارت ہر طرف ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ اس کے برعکس دنیا پاکستان کی فوج کے پروفیشنلزم، کامیاب آپریشنز اور اسٹرٹیجک سوچ کی تعریف کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کا نام بھارت کیلئے مستقل چبھن بنا ہوا ہے۔ کبھی وہ سی ڈی ایس کے کردار پر تنقید کرتے ہیں، کبھی جنگ میں ناکامی کے الزامات دہراتے ہیں، اور کبھی پاکستان کی دفاعی کامیابیوں کو جھٹلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو چیز بھارت کے مفاد میں نہیں ہوتی، وہ اسے ہر قیمت پر غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔یہی وہ سپہ سالار ہیں جنہوں نے چند دن کی جنگ میں بھارت کو اس کی اوقات یاد دلائی، اور آج بھی اگر بھارت نے کوئی مہم جوئی کی تو وہی مضبوط دیوار ثابت ہوں گے۔
اندرونی محاذ پر، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ معیشت اور قومی سالمیت ایک ساتھ چلتی ہیں۔ اگر ہم اداروں پر اعتماد نہیں کریں گے تو نہ معیشت مَضبوط ہوسکے گی اور نہ ہی ریاست کا نظم۔میں نے یہ حقیقت چند سال قبل اٹلی میں تب محسوس کی جب عدم اعتماد کے کچھ ماہ بعد پاکستانیوں کو بھارتیوں کے سامنے اپنے ہی ملک اور فوج کیخلاف گفتگو کرتے دیکھا۔ زبان، کھانوں اور ثقافت کی وجہ سے بیرونِ ملک پاکستانی، انڈین اور بنگلہ دیشی اکثر قریب آجاتے ہیں، مگر میں نے کبھی بھارتیوں کو اپنی فوج کیخلاف بات کرتے نہیں دیکھا۔ یہ تربیت ہوتی ہے، یہ خون میں شامل حب الوطنی ہوتی ہے۔ واہ کینٹ کی میری پیدائش اور تربیت نے مجھے فوراً جھنجھوڑا کہ اختلاف اپنی جگہ، لیکن دشمن کے سامنے اپنے گھر کی دیواریں کمزور دکھانا تباہی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ قومیں اس وقت گرنے لگتی ہیں جب وہ اپنے محافظوں کو ہی نشانہ بنانے لگیں۔ یہ درست ہے کہ بیرونی دشمن ہمیشہ موجود رہتے ہیں، مگر اس وقت پاکستان کو اندر سے زیادہ خطرہ ان بیانیوں، غلط فہمیوں، سیاسی نفرتوں اور مسلسل بد اعتمادی سے ہے جو گزشتہ چند برسوں میں پروان چڑھی ہے۔نفرت کا درخت جب تناور ہو جائے تو اسے جڑ سے کاٹنا پڑتا ہے۔ یہی کل کی پریس کانفرنس کا بنیادی پیغام تھا۔
پاکستان اندرونی طور پر جس عدم استحکام کا شکار رہا، اسی کا فائدہ بیرونی طاقتیں اٹھا رہی ہیں۔ بھارتی اور افغان میڈیا نے جھوٹ پھیلا کر عمران خان کی صحت سے متعلق افواہیں پھیلائیں، جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔ ان کی بہن کی ملاقات کے بعد تمام پروپیگنڈا زمین بوس ہوگیا۔ثابت ہوا کہ یہ سب ایک سوچی سمجھی مہم کا حصہ تھا۔لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ ریاستی نظام بہتری کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اگر تمام سیاسی جماعتیں ذاتی مفاد سے ہٹ کر ملک کے حق میں سوچنے لگیں تو استحکام اسی رفتار سے بڑھے گا۔ بیرونی خطرات سے کہیں زیادہ ہمیں اندرونی انتشار سے بچنا ہے۔پاکستان کی سلامتی، وقار، سرحدی تحفظ اور مستقبل سب سے پہلے ہیں۔ فوج پر اعتماد، ریاست پر یقین اور قومی حدت،آج کے پاکستان کی اولین ضرورت ہے۔