• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے دوست معروف شاعر شہزاد احمد کہا کرتے تھے’’میں ووٹ اسے دوں گا جو وزن میں شعر پڑھ سکے۔‘‘ (خدا جانے شہزاد صاحب کو زندگی میں کبھی ووٹ ڈالنا نصیب ہوا یا نہیں) یہ شاعری سے ان کی محبت کے اظہار کا عکس تھا، یہ وہی عصبیت تھی، جس کا مظاہرہ ہم ذات برادری کے نام پر انتخابات میں دیکھتے ہی رہتے ہیں۔ اسی طرح ہماری بھی ایک عصبیت رہی ہے جس کا اظہار ہم پچھلے برسوں میں کرتے رہے ہیں، یعنی ’’ہم اسے ووٹ دیں گے جو بسنت بحال کرے گا۔‘‘ بسنت کے تیوہار سے ہماری محبت اس مبالغے کی حق دار ہے۔بسنت کا تیوہار ہمارا مسئلہ رہا ہے۔ بات یہ ہے کہ ہمارے بچپن اور لڑکپن کی بے شمار یادیں پتنگ بازی سےجُڑی ہوئی ہیں، ہمیں عیدیں شبراتیں بھول گئیں، مگر بسنتیں یاد رہ گئیں، کس بسنت پر ہم نے آخری پیچا کاٹا تھا، یا کٹوایا تھا، کس بسنت پر کس کم بخت نے ہمارے’’شام لاٹ‘‘ کو’’ہاتھ مارا‘‘تھا، اور کون سی بسنت بارش کی نذر ہو گئی تھی۔ ہمارے لیے بلا شبہ بسنت سال کا سب سے بڑا تیوہار ہوا کرتا تھا۔ اور یہ صرف ہمارا معاملہ نہیں تھا، ہر ’’نارمل‘‘ لاہوریا بسنت کا عاشق ہوا کرتا تھا۔ آج سے قریباً پچیس سال پہلے بسنت کو خونی کھیل قرار دے کر اس تیوہار پر پابندی لگا دی گئی۔ کسی تیوہار پر پابندی لگانے کی غالباً یہ دنیا بھر میں واحد مثال ہے، آپ سوچ سکتے ہیں ایران جشنِ نوروز پر پابندی لگا دے، یا ہندوستان میں ہولی پر پابندی لگ جائے، یا مشرقی پنجاب میں لوہڑی کو بہ یک جنبشِ قلم روک دیا جائے۔ لیکن ہم نے یہ وحشیانہ حرکت کی۔ زبان سے لباس تک، ہم اپنا ورثہ لُٹانے کے ماہر ہیں، سو ہم نے بسنت کے تیوہار کا بھی گلا گھونٹ دیا۔صدیوں سے منائے جانے والے تیوہار کو خونی کھیل قرار دے کر بین کر دیا گیا۔ یہ قصہ سننے لائق ہے۔ہمارے بچپن میں بھی ایک بسنت مخالف لابی ہوا کرتی تھی، اس لابی کا ترجمان اخبار ہر سال ایک ہی سُرخی لگایا کرتا تھا،’’چھت سے گِر کے اتنے ہلاک اتنے زخمی، لاہوریوں نے لاکھوں روپے ہوا میں اڑا دیے‘‘ ساتھ کشمیر اور فلسطین میں اس پیسے کے ممکنہ و مستحسن استعمال کی نصیحت ہوا کرتی تھی۔ ہر سال عدالتوں میں رِٹ ہو جایا کرتی تھی، بسنت کو’’ہندوانہ‘‘ تیوہار کہنے والے واعظ بھی پھیپھڑوں کا خوب زور لگایا کرتے تھے۔ مگر لاہوریے اس تمام رطب و یابس سے بے نیاز خشوع و خضوع سے بسنت منایا کرتے تھے۔ ہمیں معلوم تھا کہ بسنت پنجاب کی زرخیز مٹی سے پھوٹا تیوہار ہے، بلکہ لاہور نے تو بسنت کو ایک یک سر نیا رنگ دے دیا تھا، لاہور جیسی بسنت پورے برِصغیر میں کہیں نہیں ہوتی تھی، یہی وجہ تھی کہ پورے ہندوستان سے ہندو سکھ بسنت منانے لاہور آیا کرتے تھے، اور برِصغیر ہی کیا دنیا بھر سے لوگ بسنت دیکھنے لاہور آیا کرتے تھے۔ ہم حیران ہوتے کہ یہ کیسا ’’ہندوانہ‘‘تہوار ہے جسے منانے کوئی ہندوستان نہیں جاتا، سب لاہور آتے ہیں۔ بسنت پھیلنے لگی، نائٹ بسنت ہونے لگی، پنجاب کے دوسرے شہروں میں بھی بسنت ہونے لگی، اس دوران بسنت میں کچھ بدعتیں بھی شامل ہو گئیں، ان میں دھاتی اور کیمیکل ڈور بھی تھی۔ عام ڈور کے برعکس یہ ڈور ٹوٹتی نہیں تھی، اس سے لوگ زخمی ہونے لگے، ہلاکتیں ہونے لگیں۔ میڈیا پر خون میں لت پت چہرے دکھائے جانے لگے، اور’’ہندوانہ تیوہار‘‘ والی لابی بھی ایک نئی امید سےشامل باجا ہو گئی۔ حکومت نے درست قدم اٹھایا، حکومت نے دھاتی اور کیمیکل ڈور پر پابندی لگا دی۔ لیکن حکومت اپنے نیم دلانہ رویے کے باعث اس پابندی پر عمل نہ کروا سکی۔ سیانی حکومت نے اس کا ایک انتہائی ’’موزوں‘‘ حل نکالا۔ بسنت کے تیوہار پر ہی پابندی لگا دی گئی۔ ایک دستخظ سے گُڈی ڈور بنانے والے ہزاروں کاری گروں کا معاشی گلا کاٹ دیا گیا، لاکھوں لوگوں سے ایک مقامی تہوار چھین لیا گیا۔ حکومتیں آتی جاتی رہیں اور ’’ہمیں کیا ضرورت ہے یہ مصیبت اپنے گلے لینے کی‘‘ کے نظریے کے تحت بسنت پر پابندی برقرار رہی۔

دنیا بھر میں تیوہاروں کے موقع پر فضا میں ہما ہمی ہوتی ہے جس سے حادثات کی شرح بڑھ جاتی ہے، کرسمس سے ہولی تک، امریکا سے بھارت تک، ہر تیوہار پر یہی ہوتا ہے، لوگ زخمی ہوتے ہیں، جان سے بھی جاتے ہیں، مگر کہیں کوئی’’دانا‘‘ حکومت اس تیوہار پر پابندی لگانے کا احمقانہ فیصلہ نہیں کرتی۔ بہرحال، خوش خبری یہ ہے کہ حکومتِ پنجاب نے بسنت پر سے پابندی اٹھا لی ہے۔ کئی مہینے سے اس محاذپر کچھ ہِل جُل ہو رہی تھی، نواز شریف تمام متعلقہ لوگوں سے مشورہ کر رہے تھے، اور آخرِ کار ایک قانون منظور کر لیا گیا۔ حکومت دھاتی اور کیمیکل ڈور کے خلاف قانون پر عمل کروائے، ایجنسیاں ہر مطلوبہ شخص کو پاتال سے ڈھونڈ نکالتی ہیں، دھاتی ڈور والوں کو بھی پکڑیں۔ ہمیں بھی حکومت کی بھرپور مدد کرنا ہو گی،’’بسنتی خوارج‘‘ کی نشان دہی کرنا ہمارا فرض ہے۔

ایک مسئلہ اور بھی ہے۔ نئی نسل کو تو بسنت کا کچھ اتا پتا نہیں۔ جو پینتیس سال سے چھوٹے ہیں انہوں نے تو بسنت دیکھی ہی نہیں۔ انہیں یہ چسکا لگنے میں دو چار سال تو لگیں گے۔ وقت لگے گا مگر ہزاروں لوگوں کو پھر روزگار ملے گا، پھر سیاح آئیں گے، پھر دنیا کا میڈیا آئے گا اور ہمارا کومل چہرہ دنیا کو دکھائے گا۔پھر سے تُکل فضا میں لہرائیں گے، فضا رنگین ہو گی، ہمارا آسمان سج جائے گا۔ ہم بسنت منائیں گے، ہم مسرور ہیں، ہم نہال ہیں۔ جی چاہ رہا ہے کہ میاں صاحب کو کمر دہری کر کے سلام کیا جائے، اور ریٹائرڈ کیپٹن صفدر کی پیشانی چوم لی جائے۔ پنجاب حکومت زندہ باد!

تازہ ترین