• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے لئے ستمبر پینسٹھ کی جنگ ہی پہلی بڑی جنگ تھی جس میں پاکستان کے دوستوں اور دشمنوں کی شناخت پریڈ عوام کے سامنے ہوئی،تب انڈونیشیا کے عبدالرحیم سوئیکارنوپاکستان کے بہترین دوست کے طور پر سامنے آئے ،اس وقت تک قدرت اللہ شہاب کی آپ بیتی قسطوں میں چھپ رہی تھی جس میں وہ بتا چکے تھے کہ قیامِ پاکستان سے بھی پہلے ولندیزیوں کے خلاف جنگِ آزادی میں مصروف سوئیکارنو اور انکے ساتھیوں کی مدد کیلئے وہ انڈین سول سروس کے مسلمان افسروں اور رائل ایر فورس کے بعض پائلٹوں کے ساتھ مل کر کلکتہ کی کباڑ مارکیٹ سے ’’مطلوبہ سامان‘‘انڈونیشیا کے مجاہدین آزادی کی مدد کیلئے فراہم کرتے تھے اس سلسلے میں سوئیکارنو یہ اشیا لینے خود آئے تھے یہی وجہ ہے کہ بقول شہاب انہیں پاکستانی سفیر کے طور پر ہالینڈ بھیجا گیا تو انکی اسناد سفارت وصول کرتے ہوئے ملکہ جولیانا نے اشارہ بھی کیا کہ پاکستانی سفیر کے ماضی سے وہ بخوبی واقف ہیں۔ بہر طور پاکستان میں فخر ماتری کے اخبار’’حریت‘‘ میں انڈونیشیا کے پہلے صدر ڈاکٹر عبدالرحیم سوئیکارنو کی آپ بیتی بھی شائع ہونے لگی جس میں وہ بتانے لگے کہ بعض جزائر میں مجھے اللہ کا اوتار خیال کرکے مجھ سے لاعلاج مریضوں پر جھاڑ پھونک یا دم درود کرایا جاتا ہے جسکے بعد میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ میرا بھرم رکھنا۔ یہ اور بات ہے کہ سوئیکارنو خوبصورت خواتین پر’’پھونکیں مارنے‘‘ میں دلچسپی رکھتے تھے یوں ذوالفقار علی بھٹو اور سوئیکارنو کی جمال پرستی ان دونوں لیڈروں کو محبوبِ خلائق بنا رہی تھی ۔اتفاق سے یہ وہ دور تھا جب بھارت کے دوست مصر کے جمال عبدالناصربھی پاکستانی ناظرین کے دل پر راج کرنے والی تین ہیروئینوں میں سے ایک وجینتی مالا سے کچھ کچھ گھائل ہوتے دکھائی دے رہے تھے تب انٹرنیٹ کا وجود نہیں تھا مگر کبھی کبھار حیرت ہوتی تھی کہ بھارت کے اخبار رسالے خاص طور پر شمع دہلی،بیسویں صدی دہلی اور فلم فئیر بمبئی پاکستان میں دستیاب ہوتے تھے۔ پھر بہت کچھ بدل گیا پینسٹھ کی جنگ کے بعد ریڈیو پاکستان پر بھارتی موسیقی پر بھی پابندی لگ گئی مگر جیسے پہلے ذکر ہوا سوئیکارنو کی آپ بیتی چھپنے لگی الجزائر کی جمیلہ بوہری،یاسر عرفات اور ایسے ہی لوگوں کا ذکر زیادہ اچھا لگتا تھا پھر ہمیں یوں لگا کہ سوئیکارنو کا تختہ جنرل سوہارتو نے نہیںجنرل ضیاء الحق نے الٹا ہے پھر انڈونیشیا میں امریکی اور مغربی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کی خبریں آنے لگیں اور سوہارتو کے دور کو ثروت مندی کا دور کہا جانے لگا مگر ساتھ ہی ساتھ ان کے داماد اور قریبی افراد کی بدعنوانی کا چرچا ہونے لگا اور یوں احساس ہونے لگا کہ سوئیکارنو کے زمانے کا سوشلزم اور چین دوستی کا دور واپس آ سکتا ہے ہزاروں چینیوں کے قتلِ عام کے باوجود اور پھر ہوا بھی یہی کہ ولندیزیوں سے انڈونیشیا کو آزادی دلانے والے سوئیکارنو کی بیٹی میگھاوتی سوئیکارنو پُتری کچھ برسوں کے لئے اقتدار میں آ گئیں اور پھر وہاں کی فوج نے انہیں رخصت کیا۔ یہ سب باتیں اس لئے یاد آئیں کہ پاکستان کے دورے پر انڈونیشیا کے صدر تشریف لائے ہیں کئی معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں مگر ان کا نام سوبائنتو ہے جو ہونٹوں پر چڑھتا ہی نہیں۔بہر طور کرداروں،کتابوں اور رسالوں کے ساتھ رومانس انہیں باقی رکھتا ہے ،ایک وقت تھا کہ پولیس چھاپے مارتی تھی ’’ اگر مجھے قتل کیا گیا‘‘ جیسا قیدی کا روزنامچہ جسکے ہاں سے برآمد ہوتا وہ پاکستان کے شاہی قلعے میں پہنچ جاتا،اسی دور میں فلم فئیر کے مدیر آئی ایس جوہر نے ایک ڈراما لکھا تھا ہمارے احوال پر Zia on the runبھارت یا دبئی کے راستے کشور ناہید پر ایم اے کا مقالہ لکھنے والے میرے ایک شاگرد الف شیخ وہ لے آئے اور وہ فوٹو کاپی ہو کر کئی لوگوں تک پہنچ گیا،دس بارہ برس کے بعد حاکم اور قیدی بدل جاتے ہیں مگر ان کے بیانات (خواب اور خدشات) کا اسلوب پرانا یا کلاسیکی ہوتا ہے،اسی لئے کتابیں بھی نظْر بند ہو جاتی ہیں، محاصرے میں آ جاتی ہیں مگر کچھ رومان پرستوں کی یادداشت میں ان کا متن گونجتا رہتا ہے مجھے بھی ایسا معذور یا نیم معذور سمجھ لیجئے تاہم میں کبھی پریشان اورکبھی کچھ کچھ خوش ہوجاتا ہوں جب کراچی سے ایک سابق بینکار اختر علی خان مجھے کہتے ہیں’’ آغا حسن عابدی، بی سی سی آئی،مشتاق احمد یوسفی اور جناب افتخار عارف سےمتعلق آپ کی معلومات ذرا ناقص ہیں۔‘‘ تاہم جب ملتان کی مریم بی بی کے مریم سٹیچز یا چار بیٹیوں کے باپ قاری امام دین کا ذکر میں فیس بک پر بے اختیار ہو کے کروں تو بہت مصروف روف کلاسرا اس پر ٹویٹ کر دے یا اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ انگریزی کی سابق سربراہ ڈاکٹر میمونہ غنی کہیں کہ میں امام صاحب کی بیٹیوں کے جہیز کی فراہمی میں کیسے مدد کر سکتی ہوں تو میں انہیں امام صاحب کا رابطہ نمبر بھیج دیتا ہوں ۔ اس دور میں ایسے اصحابِ خیر ہیں جنہیں احساس ہے کہ موسم بدل رہا ہے صبح کے وقت سکول جانے والے بچوں کیلئے جرسی،پاوں کا جوتا اور جراب تو ضروری ہے ہی ان کے افراد خانہ کا بوسیدہ کمبل نئے لحاف سے تبدیل ہو جائے تو زیادہ اچھا ہے ۔

مجید امجد کی نظم’’پھولوں کی پلٹن‘‘ہر صاحب ِذوق نے پڑھ رکھی ہے ،حرج نہیں کہ اس کے کچھ مصرعے دہرا لئے جائیں:

بچو آو تمہیں سنائیں گزرے ہوئے برسوں کی

سہانی جنوریوں کی کہانی

صبح کو لمبے لمبے اوورکوٹ پہن کر لوگ گلی میں

ٹہلنے آتے

ان کے پراٹھوں جیسے چہرے ہماری جانب

جھکتے

لیکن ہم تو باتیں کرتے رہتےاورچلتے رہتے

پھر وہ ٹہلتے ٹہلتے ہمارے پاس آ جاتے

بڑے تصنع سے ہنستے اور کہتے

’’ننھو! سردی تمہیں نہیں لگتی کیا‘‘؟

ہم سب بھرے بھرے جزدان سنبھالے

لوحیں ہاتھوں میں لٹکائے

بِنا بٹن کے گریبانوں کے پلو ادھڑے کاجوں میں اٹکائے

تیز ہواوں کی ٹھنڈک اپنی آنکھوں میں بھر کر

چلتے چلتے تن کے کہتے

’’ نہیں تو،کیسی سردی

ہم کوتو نہیں لگتی‘‘!

تازہ ترین