پیارے قارئین!سردیاں آتے ہی انسان کے دل میں ایک عجیب سی خواہش جاگ اٹھتی ہے کہ چلو آج بادام کھا لیتے ہیں، کل کاجو چکھتے ہیں، پرسوں پستہ آزماتے ہیں اور مہینے کے آخر میں بجلی اور گیس کے بل دیکھ کر ہاتھوں سے سر پکڑ لیتے ہیں۔سردیوں میں ڈرائی فروٹ خریدنے کا تصور ہی ایسا ہے جیسے آپ اپنی جیب کے ساتھ جنگ لڑنے جا رہے ہوںاور شکست بھی یقینی ہو۔ڈرائی فروٹ کی قیمتیں سن کر ایسا لگتا ہے کہ یہ چیزیں درختوں پر نہیں، اقوام متحدہ کی عمارت میں اُگتی ہیں۔ بادام کا ریٹ سن کر طبیعت یوں مکدر ہوتی ہے جیسے کسی نے اچانک بتا دیا ہو کہ آپ کا ابھی ابھی چالان ہو گیا ہے۔کچھ دن پہلے میں خود اپنے گھر کیلئے ڈرائی فروٹ خریدنے گیا۔ دکان میں داخل ہوا تو دکاندار نے ایسے دیکھا جیسے میں اس کے تمام قرضے واپس کرنے آیا ہوں۔پوچھا: ’’بھائی! بادام کتنے کے ہیں؟وہ مسکرایا... ایسی مسکراہٹ جیسے کوئی سیاسی لیڈر عوام سے وعدہ کرتا ہے کہ مہنگائی ختم کر دوں گا۔کہنے لگا: سر! بس عام سے بادام ہیں... ایک ہزار آٹھ سو روپے پاؤ!۔ میں نے چونک کر پوچھا:’’بھائی! پاؤ مانگا تھا یا پلاٹ؟دکاندار نے کینڈل لائٹ جیسی ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا:’’سر! دراصل یہ کیلی فورنیا والے بادام ہیں۔‘‘میں نے عاجزی سے کہا:’’بھائی! میں شادی نہیں کر رہا کہ آپ مجھے امریکہ سے رشتہ دکھا رہے ہوں۔ مجھے سیدھا سادہ پاکستانی بادام دکھا دیں... وہ بھی اگر کوئی غلطی سے اسٹاک میں آگیا ہو تو!‘‘پاکستانی بادام بھی ایسی قیمت پر ملے کہ مجھے اپنا سارا ماضی یاد آگیاوہ بھی ڈیٹیل کے ساتھ۔پھر میں نے کوشش کی کہ چلو کاجو پوچھ لیتے ہیں۔ شاید قسمت مہربان ہو جائے۔کاجو کتنے کے ہیں؟’’اس نے دراز سے ایک خوبصورت سے ڈبّے میں سے کاجو نکالے جیسے کسی نیک روح کا جنازہ دکھا رہا ہو۔اور پھر کہا:’’سر یہ پریمیم کاجو ہیں۔ تین ہزار روپے پاؤ‘‘میں نے جواب دیا:یعنی ایسے کاجو ہیں جنہیں کھا کر انسان خود کو امیر سمجھنے لگے؟دکاندار نے ہنستے ہوئے کہا:’’سر! پریمیم چیزیں مہنگی تو ہوتی ہیں ناں!‘‘ میں نے دل ہی دل میں کہا: ’’اللہ کرے تمہارے بچوں کیلئے اسکول کی فیس اسی رفتار سے بڑھے جس رفتار سے تم ڈرائی فروٹ کے ریٹ بڑھا رہے ہو!‘‘ پھر میں نے آخری امید کے طور پر مونگ پھلی کی طرف رخ کیاغریب کی پسندیدہ، محبوب، مخلص اور ہمیشہ ساتھ دینے والی ساتھی۔ پوچھا: ’’بھائی مونگ پھلی تو سستی ہوگی؟ دکاندار نے ایک گہری سانس لی... جیسے کوئی شاعر غزل کا مشکل ترین شعر پڑھنے لگا ہو...“سر! بس تھوڑی سی مہنگی ہوئی ہے۔ آٹھ سو روپے کلو!میں نے حیرت سے کہا:’’بھائی! تم مونگ پھلی بیچ رہے ہو یا مونگ پھلی کے ساتھ اس کی زمین بھی؟‘‘وہ کہنے لگا:سر! پیٹرول مہنگا ہے... بارشیں کم ہوئیں... لاگت بڑھ گئی... میں نے کہا: بھائی! مونگ پھلی کا پودا گاڑی نہیں چلاتا! یہ کیسے مہنگی ہوگئی؟ یہاں میں نے حالات کی سنگینی بھانپ لی۔ ڈرائی فروٹ خریدنا ایسی ہی مہم ہے جیسے انسان بغیر تیاری کے مری پہنچ جائے،نظر تو سب کچھ بہت خوبصورت آتا ہے، مگر سانس پھول جاتا ہے۔ سوچنے لگا کہ آخر لوگ اتنے مہنگے ڈرائی فروٹ خریدتے کیسے ہیں؟شاید ایسے خریدتے ہوں جیسے نوجوان عشق کرتے ہیں،بجٹ دیکھے بغیر۔ یا شاید یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنکے گھر میں ڈرائی فروٹ ایک ٹائم پر Ration کی طرح تقسیم ہوتا ہے۔بیٹا! یہ چار بادام دیکھو... ایک تمہارا، ایک بہن کا، ایک ابو کا... اور آخری بادام ہمارے گھر کے تقدس کے نام!۔پاکستان میں ڈرائی فروٹ خریدنے کے کچھ اصول ہیں جو قاسمیانہ حکمت کے مطابق میں نے خود طے کیے ہیں۔
1. ہمیشہ صبح سویرے جائیںکیونکہ دکاندار کا موڈ اُس وقت تک خراب نہیں ہوتا۔ وہ امید رکھتا ہے کہ آج اچھا دن ہوگا... اور آپ وہ امید توڑنے والے پہلے گاہک ہوں گے۔
2. قیمت سنتے ہی گہری سانس لیںگہری سانس اس لیے کہ بے ہوش ہونے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔
3. پہلے مونگ پھلی خریدیںاس سے دکاندار سمجھتا ہے کہ آپ غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ پھر وہ آپ کو کاجو دکھانے میں احتیاط برتے گا۔
4. بادام خریدنے سے پہلے گھر والوں سے وصیت لکھوا لیںکیونکہ بادام خریدنے کے بعد بندہ ذہنی طور پر تبدیل ہو جاتا ہے۔
5. ہر چیز کی مقدار آدھی کروائیںایک پاؤ مانگیں گے تو جیب ہلکی ہو جائے گی، آدھا پاؤ لیں گے تو صرف دل ہلکا ہوگا۔
6. گھر جا کر سب کو جھوٹ بول دیں کہ دکاندار سے’’خاص رعایت‘‘ملی ہےورنہ گھر والے آپ کی عقلمندی پر سوال اٹھائیں گے۔لیکن سچ بات یہ ہے کہ ڈرائی فروٹ صرف کھانے کی چیز نہیں،یہ سردیوں کی وہ محبت ہے جو انسان خود کو مہنگائی کے باوجود دیتا ہے۔یہ بادام، پستے، کاجو، اخروٹ، یہ سب اُس وقت کی یاد دلاتے ہیں جب گھر کی چھت پر بیٹھ کر دھوپ میں مونگ پھلیاں توڑنا ایک تقریب ہوتا تھا۔ہنسی، چہچہاہٹ، بچیوں کا مونگ پھلیاں چھپا دینا، بچوں کا اخبار پر بیٹھ کر مقابلہ کرنا کہ کس کے دانے زیادہ نکلے...تب نہ ریٹ کا درد تھا، نہ مارکیٹ کا خوف۔اب تو ہم بادام کھانے سے پہلے Calculator کھولتے ہیں۔جب تک حساب نہ لگے کہ ایک بادام کتنے روپے کا پڑ رہا ہے، نوالہ حلق میں نہیں اترتا۔آخر میں دکاندار نے کہا’’سر کچھ لے کر تو جائیں... خالی ہاتھ نہ جائیں!میں نے جیب میں دیکھا.. بالکل خالی تھی۔دل میں دیکھا... وہ بھی خالی ہوتا جا رہا تھا۔سو میں نے کہا:’’بھائی! مجھے ایک پاؤ حوصلہ دے دو... وہ شاید سستا ہو! دکاندار نے مسکرا کر کہا:’’سر! حوصلہ اس وقت فری ہے... لیکن اسے استعمال اپنے اپنے حالات کے مطابق کریں۔تو حضور!سردیوں میں ڈرائی فروٹ خریدنا ایک فن ہے،ایسا فن جس میں انسان اپنی محنت کی کمائی، اپنی جیب کی خودداری، اور اپنی بیوی کے طنز... سب کو داؤ پر لگاتا ہے۔ڈرائی فروٹ مہنگا ہو سکتا ہے...مگر اس مزاح، اس یاد، اس خوشبو اور اس چھوٹی چھوٹی خوشی کا کوئی مول نہیں۔اگر آپ نے اب تک ڈرائی فروٹ نہیں خریداتو میرے بھائی!گھر بیٹھ کر مونگ پھلی کے خواب ہی دیکھ لو...فی الحال وہی سستی ہے۔