• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ملک میں لوگ قہقہہ لگانے کے معاملے میں کچھ ایسے کنجوس واقع ہوئے ہیں کہ جیسے کسی نے انکے دلوں پر ہنسی کا ٹیکس لگا رکھا ہو۔ میں نے تو کئی ایسے بزرگ دیکھے ہیں جو بچپن سے اب تک صرف ایک دفعہ ہنسے ہیں، وہ بھی تب جب انکے پڑوسی کی انگوٹھی نالی میں گر گئی تھی۔اس نادر مسکراہٹ کو دیکھ کر میں نے اندازہ لگایا کہ ہمارے ہاں خوشی کا تعلق اکثر اپنی کامیابی سے نہیں، دوسروں کی ناکامی سے ہوتا ہے۔ ایسے میں لوگوں کو ہنسانا بھی کسی سرکاری دفتر میں فائل آگے کروانے جیسا ہو جاتا ہے ۔ محنت بھی زیادہ، نتیجہ بھی غیر یقینی۔ لیکن پھر بھی لوگ پوچھتے ہیں: قاسمی صاحب! لوگوں کو ہنسانے کا کوئی آسان نسخہ بتا دیں؟میں کہتا ہوں: بھائی، آسان ہوتا تو میں بھی کب کا سیریس کالم نگار بن چکا ہوتا!۔میں نے زندگی میں ہنسی کے کئی نسخے آزمانے کی کوشش کی۔ مگر ہر بار مجھے لگا کہ ہنسانے کا کام بھی وہی کر سکتا ہے جسے اللہ نے دل کھول کر متحمل مزاجی اور خود پر ہنسنے کی صلاحیت دی ہو۔ ورنہ ہمارے ہاں اکثر لوگ دوسروں پر تو ہنستے ہیں، مگر اگر کوئی غلطی سے ان پر ہنس دے تو فوراً کہتے ہیں ۔بھائی! میں نے ایسا کیا کر دیا؟جیسے ہنسنے کیلئے بھی پہلے NOC لینا ضروری ہو۔کچھ لوگ تو ایسے بھی ملے جو خود بھی نہیں ہنستے اور دوسروں کو بھی ہنسنے نہیں دیتے۔ ایسے بھاری بھرکم چہرے اور چبھتی ہوئی آنکھوں والے صاحبان کو میں ’مزاحیاتی ٹریفک پولیس‘ کہتا ہوں۔یہ ہر قہقہے کو روک کر پوچھتے ہیں۔ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ کیا ثبوت ہے کہ یہ بات واقعی مزاحیہ تھی؟ایسے لوگوں سے کوئی کیا بحث کرے؟ میں تو کئی بار سوچتا ہوں کہ انکے پاس ہنسی کو روکنے کا کوئی خفیہ لائسنس ہوتا ہے یا یہ پیدائشی طور پر ہنسی کے دشمن ہوتے ہیں۔ویسے لوگوں کو ہنسانے کیلئے سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ انسان خود کو سنجیدہ سمجھنا چھوڑ دے۔میں نے جب بھی اپنی زندگی کے واقعات کو ٹھنڈے دل سے دیکھا تو لگا کہ میرا اپنا وجود ہی کسی خطِ مستقیم کے اوپر چلتی ہوئی مزاح کی لکیریں ہے۔مثلاً ایک بار میں ایک تقریب میں گیا۔ وہاں ایک صاحب نے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا:یہ بڑے مزاحیہ لکھاری ہیں۔ ان کی باتوں پر لوگ بہت ہنستے ہیں!میں نے ابھی ہلکی سی مسکراہٹ ہی دکھائی تھی کہ حاضرین میں بیٹھے ایک صاحب فوراً بول اٹھے۔ہنسی تو ہمیں ابھی آئی نہیں۔ آپ جاری رکھیں!میں نے سوچا: جناب چاہتے ہیں کہ تعارف بھی ایسا ہو جیسے کسی کوٹ کی پُشت سے گارنٹی نکلتی ہو:مزاح 100فیصد، ورنہ پیسے واپسی!کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ لطیفہ سنانا ہی مزاح ہے۔ حالانکہ میں کئی ایسے لطیفہ سنانے والوں سے ملا ہوں جن کے لطیفے سن کر بندہ سوچتا ہے کہ یہ سنانے والے میڈیکل اسٹور پر کام کیوں نہیں کرتے؟ کیونکہ انکی بات سن کر آدمی بے ہوش ہونے تک پہنچ جاتا ہے۔ اصل مزاح وہ ہے جو زندگی کو ہلکی سی گدگدی کرے۔ایسا مزاح نہ کسی کی عزت پگھلائے، نہ کردار کی دیواریں توڑ دے۔ بس ایک نرم سا دھکا دے جو دل میں جگہ بنائے اور چہرے پر مسکراہٹ چھوڑ جائے.میرے ایک دوست ہیں۔ بڑے سمجھدار، شریف النفس اور کم گو قسم کے انسان۔ مگر جب بھی مزاح کی بات ہوتی ہے تو وہ ایک ہی فارمولا بتاتے ہیں۔ لوگوں کو ہنسانے کا طریقہ یہ ہے کہ ان پر ہنس دو۔ میں نے کہا: بھائی! یہ تو پھر لڑائی کا طریقہ ہے، مزاح کا نہیں!وہ بولے: قاسمی صاحب، آپ تجربہ کریں۔ لوگ پہلے حیران ہوتے ہیں، پھر ناراض، پھر کچھ سوچتے ہیں،آخر میں ہنس ہی دیتے ہیں! میں نے کہا: آخر میں جو کچھ ہوتا ہے، اسے مزاح نہیں کہتے، اسے صلح صفائی کہتے ہیں!ہمارے ہاں ایک اور مزاحیہ مخلوق بھی پائی جاتی ہے ’مشورہ دینے والے‘۔یہ لوگ خود چاہے زندگی بھر کسی کو نہ ہنسا سکے ہوں، مگر مشورے ایسے دیتے ہیں جیسے قہقہہ انکی جیب میں رکھا ہو۔ ایک صاحب نے مجھے بڑی سنجیدگی سے کہا:قاسمی صاحب! لوگوں کو ہنسانا چاہتے ہیں تو انکے سامنے آئینہ رکھ دیا کریں۔میں نے کہا: حضور! اس مشورے میں مزاح کم اور خطرہ زیادہ ہے۔آئینہ دیکھ کر اگر بندہ اپنی ہی شکل پر سنجیدہ ہو گیا تو کل میرے خلاف مقدمہ درج ہو جائیگا کہ میں نے غلط چیزیں دکھائیں!اصل بات یہ ہے کہ لوگ ہنستے اُس وقت ہیں جب انہیں اپنی زندگی میں تھوڑی روشنی دکھائی دے۔ کبھی یہ روشنی کسی واقعے میں ہوتی ہے، کبھی کسی جملے میں، کبھی کسی حرکت میں اور کبھی کسی ایسی حقیقت میں جسے ہم چھپانے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ پھر بھی مسکرا کر سامنے آ جاتی ہے۔میں نے کئی بار محسوس کیا کہ لوگ ان چیزوں پر سب سے زیادہ ہنستے ہیں جو ان کے اپنے اندر چھپی ہوتی ہیں۔ مثلاً اگر آپ کہیںہماری قوم جلد غصہ کرتی ہے…تو آدھے لوگ فوراً غصے سے بول اٹھتے ہیں:کیا مطلب؟ ہم غصہ کرتے ہیں؟ یہی غصہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جملہ سچ بھی ہے اور مزاحیہ بھی۔ہنسی پیدا کرنے کیلئے کبھی کبھی صرف ایک چھوٹا سا منظر ہی کافی ہوتا ہے۔ ایک بار میں لاہور کے ایک چائے خانے میں بیٹھا تھا۔ سامنے ایک صاحب نے چائے کا کپ اٹھایا اور انتہائی رعب سے بولے: میں چائے میں شہد ڈالتا ہوں، کیونکہ میں میٹھا پسند کرتا ہوں! ویٹر نے فوراً کہا سر! چائے بھی میٹھی ہے، شہد بھی میٹھا ہے، اور آپ بھی میٹھے ہیں۔ آخر کتنا میٹھا چاہتے ہیں؟ وہ صاحب سٹپٹا گئے۔میں نے دل میںکہا: لاہور میں میٹھا کھانا آسان ہے، مگر میٹھا سننا بہت مشکل۔اگر آپ لوگوں کو ہنسانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلا نسخہ یہ ہے. خود پر ہنسنے والا کبھی ناکام نہیں ہوتا، کیونکہ اس کے پاس ہمیشہ تازہ مواد موجود رہتا ہے۔ ہمارے ہاں ہر دوسرا مشورہ اور رائے اس قابل ہوتی ہے کہ بندہ اسے کاپی کر کے مزاحیہ ڈرامے میں لگا دے۔ سنجیدگی اچھی چیز ہے، مگر جب یہ زیادہ ہو جائے تو انسان کا چہرہ سرکاری نوٹس جیسا ہو جاتا ہے ، پڑھنے کا دل نہیں کرتا۔آخر میں ایک بات:ہمارے ملک میں لوگوں کو ہنسانا دنیا کے مشکل ترین کاموں میں شمار ہوتا ہے، کیونکہ عام حالات میں بھی لوگ اتنے مسائل جھیل رہے ہوتے ہیں کہ ہنسنے سے پہلے سوچتے ہیں کہ یہ ہنسی کہیں قسطوں میں تو نہیں آئیگی؟ لیکن پھر بھی ہنسی ایک تحفہ ہے۔اور ہنسوانا… عبادت کے قریب ترین فن۔ ہمیں بس موقع ملتے ہی قہقہہ لگا دینا چاہیے۔کیونکہ زندگی ہر روز ہمارے ساتھ جو کھیل کھیلتی ہے، وہ کبھی کبھار ہماری ہنسی ہی سے برداشت ہوتا ہے۔

تازہ ترین