آج سے پانچ سال پہلے پاکستان معیشت کے میدان میں مسلسل پسپائی کے علاوہ خارجہ محاذ پر بھی جس بری طرح ناکام ہوچکا تھا، وہ ایسی حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ امریکہ اور چین دونوں سے تعلقات میں انتہائی سردمہری کیساتھ ساتھ انڈونیشیا اور ملائیشیا وغیرہ کا کیا ذکر، عرب دنیا، ترکیہ، ایران اور وسط ایشیائی ملکوں سے بھی روابط میں کوئی گرم جوشی باقی نہیں رہ گئی تھی۔ تاہم اللّٰہ کے فضل سے آج صورت حال تقریباً مکمل طور پر بدل چکی ہے۔ جہاں ایک طرف پاک سعودی دفاعی معاہدے نے دونوں برادرملکوں کو سرگرم تعلقات کے ایک نئے اور نہایت خوش آئند دور میں پہنچا دیا ہے وہیں ایران کے حکمرا ں اور عوام سبھی اپنے ملک کے اسرائیلی جارحیت کا شکار ہونے کے دوران پاکستان کی غیرمعمولی حمایت اور تعاون پر رطب اللسان ہیں۔ حیرت انگیز طور پر ایران کی اس حمایت کے باوجود اس کے انتہائی مخالف امریکی صدر ٹرمپ بھی اپنے سابقہ دور اقتدار کے بالکل برعکس پاکستان کی طرف واضح جھکاؤ رکھتے ہیں جبکہ پاک چین دوستی بھی دونوں ملکوں کی قیادتوں کے مطابق ہمیشہ کی طرح مستحکم اور مثالی ہے۔مئی میں چار روزہ پاک بھارت جنگ کے دوران ترکی اور
آذر بائیجان نے کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا، پاکستان کی کامیابی پر عرب اور مسلم دنیا میں قومی سطح پر جس مسرت کا اظہار ہوا اور اس کے بعد عالمی ردعمل جس طرح مکمل طور پر پاکستان کے حق میں رہا اور بھارت کے ساتھ اسرائیل کی صہیونی قیادت کے سوا کوئی کھڑا نہیں ہوا، یہ سب خارجہ محاذپر پاکستان کی واضح کامیابیوں کے ناقابل تردید شواہد ہیں۔ پاکستان کے موجودہ دور حکومت میں ملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم ، ایران کے صدر اور دیگر اہم شخصیات کے علاوہ متعدد عرب ریاستوں کے اہم ذمے داروں کی پاکستان آمد، سیاسی و عسکری قیادت سے ملاقاتیں، وسط ایشیائی ریاستوں سے بڑھتے ہوئے روابط اور سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ملک انڈونیشیا کے صدر کی پاکستان تشریف آوری اور معیشت و دفاع سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی میں تعاون کے معاہدے، خارجہ محاذ پر یقیناًپاکستان کی اہم کامیابیاںہیں۔ تاہم اس حوالے سے افغانستان کیساتھ تعلقات کا بدترین سطح تک پہنچ جانا بلاشبہ قابل توجہ ہے۔ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال ہونے کی چھوٹ دیکر طالبان حکومت نے پاکستانی قوم ہی کو مایوس نہیں کیا بلکہ وسط ایشیائی ریاستوں کو بھی تشویش میں مبتلا کردیا ہے کیونکہ افغانستان سے ہونیوالی دہشت گردی کا دائرہ ان تک وسیع ہونا شروع ہوگیا ہے۔فکرمندی کی بات یہ ہے کہ اس مسئلے کے حل کیلئے ترکی، قطر اور سعودی عرب کی کوششیں بے نتیجہ رہی ہیں جبکہ ایران اور روس کی پیشکشوں پر بات آگے نہیں بڑھی ہے۔ تاہم بتایا جاتا ہے کہ چینی قیادت نے ازسرنو معاملات بہتر بنانے کی کوششوں کا آغاز کردیا ہے۔ ہوشمندی کا تقاضا ہے کہ افغانستان اور پاکستان دونوں ان کوششوں کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے مخلصانہ تعاون کریں ۔ پاک افغان کشیدگی کے تناظر میں ایک اہم پیش رفت وسط ایشیائی ممالک کا پاکستان کی طرف بڑھتا ہوا جھکاؤ اور پاکستان کیساتھ معیشت، تجارت اور دفاع سمیت مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کے اقدامات ہیں۔ اس کے جو واضح مظاہر حالیہ دنوں میں منظر عام پر آئے ہیں‘ ان میں کرغزستان کے صدر کا بیس سال بعد پاکستان کا دورہ خاص طور پر اہم ہے جس میں تجارت، تعلیم، سیاحت، توانائی اور زراعت جیسے شعبوں کا احاطہ کرنیوالے متعدد معاہدے ہوئے۔ کرغزستان کے ایک کاروباری فورم نے پاکستانی کاروباری شعبے میں بڑی دلچسپی کا اظہار کیا۔ 2024ء میں دو طرفہ تجارتی ٹرن اوور 16 ملین ڈالر سےکم تھا جبکہ اب دونوں ممالک نے 2027-28ء تک سالانہ تجارتی حجم کو 200 ملین ڈالر تک بڑھانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ سیکورٹی کا معاملہ بھی باہمی گفتگو کا ایک اہم نکتہ تھا۔
وسط ایشیائی ریاستیں افغانستان میں طالبان کی مکمل حمایت کی پاکستانی پالیسی کی وجہ سے پچھلی کئی دہائیوں کے دوران پاکستان سے دور رہیں لیکن افغان حکومت نے اپنی سرزمین دہشت گردی کیلئے استعمال ہونے کی چھوٹ دے کر صورت حال کو بدل دیا ہے۔ وسط ایشیائی ریاستیں اسی بنا پر پاکستان کے ساتھ گرمجوش روابط کی راہ پر آگے بڑھ رہی ہیں۔ کرغزستان کے صدر صادر ژپاروف کا اسلام آباد میں یہ کہنا کہ ’’افغان طالبان کی حکومت کو بین الاقوامی برادری کے ساتھ اپنے وعدوں کا احترام کرنا چاہیے، کرغزستان اور پاکستان انتہا پسندی اور بین الاقوامی جرائم پر قابو پانے کیلئے تعاون کو وسعت دینگے۔‘‘ خطے کی سیاسی ، سماجی اور دفاعی صورت حال میں اسی تبدیلی کا مظہر ہے۔ دیگر وسط ایشیائی ریاستیں بھی اسی طرح پاکستان کیساتھ سرگرم روابط کے فروغ کیلئے کوشاں ہیں۔ تاجکستان نے حال ہی میں افغان عسکریت پسندوں کی طرف سے سرحد پار سے دو حملے دیکھے ۔ سیکورٹی تعاون اور معلومات کے تبادلے کے عمل میں پاکستان کو بھی شریک کرنے کا فیصلہ اسکی جانب سے اسی بنا پر کیا گیا ہے۔ ازبکستان ،پاکستان کے ساتھ وسطی ایشیا کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ 2025 کی دوسری ششماہی کے دوران دونوں ملکوں کے کاروباری رابطوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور دو طرفہ کاروبار کو دو ارب ڈالر تک بڑھانے کا ہدف طے پایا ہے۔ قازقستان کی جانب سے بھی پاکستان میں دلچسپی کا اظہار بڑھ رہا ہے۔ پچھلے سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 2025ء کے پہلے سات مہینوں کے دوران تجارتی حجم دوگنا سے بھی زیادہ ہوگیا ہے۔ جنوری میں قازق صدر کا پاکستان کا طے شدہ دور ہ توقع ہے کہ مختلف شعبوں میں تعلقات کے مزید فروغ کا ذریعہ بنے گا۔ وسطی ایشیا اور پاکستان کے درمیان تجارت کو فروغ دینے کی کلید موثر زمینی اور ریل رابطوں کا قیام ہے۔ خشکی سے گھری وسط ایشیائی ریاستوں کیلئے پاکستانی بندرگاہوں تک رسائی انکی ایک بڑی ضرورت کی تکمیل کرسکتی ہے، جس سے ممکنہ طور پر عالمی تجارت میں نمایاں توسیع ممکن ہے۔ نومبر میں ازبک ریلوے اور پاکستان کے انٹرنیشنل روڈ ٹرانسپورٹ چیمبر نے دو بڑے زمینی راستوں کے ذریعے تجارت کو فروغ دینے کیلئے تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ ایک بہت زیادہ براہ راست اور موثر ریل روٹ افغانستان سے گزرے گا۔ ازبک ریلوے اور ایک پاکستانی فرم نے ٹرانس افغان ریلوے کی تعمیر کے اخراجات اور انجینئرنگ پر تبادلہ خیال کیا ہے لیکن اس کیلئے افغانستان میں دہشتگرد تنظیموں کے ٹھکانوں کا خاتمہ ضروری ہے۔ خارجہ محاذ پر پاکستان کی یہ غیر معمولی پیش رفت نہایت امید افزا ہے ۔ اسکے نتیجے میں اِن شاء اللّٰہ پاکستان کے عالمی اثر و رسوخ میں بھی اضافہ ہوگا اور معاشی خوشحالی کی راہیں بھی کشادہ ہوں گی۔