• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کی سیاست میں انتشار، محاذ آرائی، ریاستی اداروں کے ساتھ ٹکراؤ اور انتخابی عمل کے خلاف بغاوت کوئی نئی بات نہیں۔ امریکہ سے لے کر ترکی، برازیل، بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، فرانس، اٹلی اور مشرقِ وسطیٰ تک کہیں سیاسی جماعتیں ریاست کے ساتھ لڑتی دکھائی دیتی ہیں، کہیں ریاست سیاسی قوتوں کو قابو کرنے کی کوشش کرتی ہے اور کہیں عوام اس جنگ کا ایندھن بن جاتے ہیں۔ مگر پاکستان کا سیاسی تجربہ دنیا کے بیشتر ممالک سے کہیں زیادہ غیر معمولی، پیچیدہ اور خطرناک ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہاں سیاسی بحرا ن محض سیاسی بحران نہیں رہتا۔ یہ ریاستی بقا، جغرافیائی خطرات، دہشت گردی، بیرونی مداخلت، معیشت اور قومی سلامتی کے ساتھ گتھم گتھا ہو جاتا ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں دیگر ممالک کی مثالیں مدد تو دیتی ہیں، مگر پاکستان کا معاملہ پھر بھی منفرد رہتا ہے۔دنیا میں کئی سیاسی جماعتیں ریاستی اداروں کے ساتھ ٹکراؤ کے راستے پر چلیں، مگر انہیں ایک مشترکہ حقیقت نے آخرکار شکست دی ریاست کبھی نہیں ہارتی اور جو سیاسی قوت ریاست کے وجود کے بیانیے کو چیلنج کرے وہ دیرپا نہیں رہتی۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے 2020 کے انتخابات کو تسلیم کرنے سے انکار کیا، کیپٹل ہل پر حملہ ہوا ریاستی اداروں پر سوال اٹھے مگر آخرکار ریاست قائم رہی اور ٹرمپ کا سیاسی مستقبل عدالتوں، قوانین اور اداروں کے ہاتھوں محدود ہو گیا۔ برازیل میں بولسونارو نے الیکشن کو دھاندلی قرار دیا تو ریاست نے اختلاف ضروربرداشت کیامگر بغاوت کو برداشت نہ کیا۔ ترکی میں اردوان کی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت ہوئی مگر ریاست نے سختی کی اور وہ عناصر ہمیشہ کیلئے منظر سے ہٹ گئے۔ بنگلہ دیش میں جماعتِ اسلامی، بی این پی اور حسینہ واجد کی حکومت کے درمیان لڑائی کئی دہائیوں تک جاری رہی مگر جو گروہ ریاست کو چیلنج کرے وہ برداشت نہ کیا گیا۔ مصر، شام، الجزائر اور لیبیا میں بھی سیاسی قوتوں نے ریاست کو چیلنج کیا، مگر انجام سب کے سامنے ہے۔ پاکستان میں تحریک انصاف اس وقت وہی راستہ اختیار کر چکی ہے جسے دنیا میں کوئی سیاسی جماعت اختیار کر کے کامیاب نہیں ہوئی۔ سیاست میں جارحیت، بیانیے میں تصادم، اداروں پر حملے، ریاستی موقف کے مقابل عالمی طاقتوں کو اپیلیں، اندرونی خلفشار اور عوام کو ریاست کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش، یہ سب وہ عناصر ہیں جو کسی بھی سیاسی جماعت کو زندہ نہیں رہنے دیتے۔ دنیا میں جہاں جہاں سیاسی قوتوں نے ایسی غلطیاں کیں وہ یا تو پابندیوں کا شکار ہوئیں یا ٹوٹ پھوٹ کا یا قیادت کے آپس کے اختلافات کا۔ پاکستان میں تحریک انصاف اس مقام پر کھڑی ہے جہاں اس کا بیانیہ سیاست سے نکل کر ریاستی لڑائی میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ریاست کی نظر میں یہ اب ایک سیاسی عدم اتفاق نہیں رہا بلکہ ایک سیکورٹی مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ دنیا بھر کی مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ جب ریاست کو لگے کہ سیاسی گروہ ملک کے وجود سے بڑا ہو رہا ہے یا حساس ادارے اسکی زد میں آ رہے ہیںتو سمجھوتے کی گنجائش کم ہو جاتی ہے۔ امریکہ میں ٹرمپ، ترکی میںگولن نیٹ ورک، مصر میں اخوان المسلمون، بنگلہ دیش میں بی این پی اور جماعت اسلامی، سری لنکا میں راج پکشا خاندان کے خلاف عوامی بغاوت، سبھی ایک مشترکہ نتیجے پر پہنچے کہ ریاست صرف اس حد تک لچک دکھاتی ہے جہاں اسے اپنی بقاء خطرے میں محسوس نہ ہو۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال پر بھی یہی اصول لاگوہوتاہے۔ پاکستان کی سیاست اس وقت ایسی کھائی کے کنارے کھڑی ہے جہاں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ضروری ہے۔ معیشت کمزور ہے نوجوان مایوسی کا شکار ہیں ، پڑوسی ممالک کی طرف سے خطرات بڑھ رہے ہیں، دہشت گردی دوبارہ سر اٹھا رہی ہے، بلوچستان اور خیبرپختونخوا حساس ترین سکیورٹی علاقے ہیں اور عالمی سرمایہ کار ایک قدم بڑھانے سے پہلے سو بار سوچتے ہیں۔ ایسے میں کسی سیاسی جماعت کی ریاستی اداروں سے محاذ آرائی صرف بے وقوفی نہیں بلکہ قومی خودکشی کے مترادف ہے۔ تحریک انصاف نے ایک ہی وقت میں تین لڑائیاں چھیڑ رکھی ہیں ریاست کے خلاف بیانیہ، عالمی طاقتوں سے اپیلیں اور عوامی جذبات کو بھڑکانے کی کوشش۔ دنیا میں کوئی بھی سیاسی قوت بیک وقت تین محاذوں پر لڑ کر زندہ نہیں رہ سکی۔تحریک انصاف کی سیاست میں واپسی صرف تب ممکن ہے جب وہ سیاست کے دائرے میں رہنے کا فیصلہ کرے۔ بیانیہ بدلنا پڑے گا زبان بدلنی پڑے گی، ریاست کے ساتھ محاذ آرائی چھوڑنا پڑے گی، عالمی مداخلت کے تاثر کو دفن کرنا پڑئیگا اور سب سے اہم، اپنی سیاسی کور ٹیم کو اس سوچ سے باہر نکالنا پڑے گا کہ تصادم ہی انکی سیاسی بقا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں جس بھی جماعت نے ریاست کے ساتھ تصادم کو اپنا سیاسی ہتھیار بنایا، وہ کچھ سال چل تو گئی مگر ٹکی نہیں۔ تحریک انصاف بھی اسی دوراہے پر کھڑی ہے۔ ایک طرف مفاہمت، مکالمہ، آئینی سیاست اور سیاسی عمل کی بحالی کا راستہ ہے۔ دوسری طرف جارحانہ بیانیہ، تصادم اور مسلسل ٹکراؤ کا راستہ۔ سیاست کا راستہ زندہ رکھتا ہے جبکہ ٹکراؤ کا راستہ سیاسی وجود ختم کر دیتا ہے۔


دنیا کی مثالیں پاکستان کو سبق دیتی ہیں مگر پاکستان کا اپنا تجربہ سب سے بڑا سبق ہے۔ جو جماعتیں ریاست کو چیلنج کرتی ہیں وہ تاریخ کے ایک موڑ پر پہنچ کر تحلیل ہو جاتی ہیں۔ پاکستان کیلئے بہتر یہی ہے کہ سیاسی قوتیں حقیقت تسلیم کریں، مکالمہ بحال ہو، پارلیمان کو فیصلہ سازی کا مرکز بنایا جائے اور سیاسی تقسیم کو قومی تقسیم میں تبدیل ہونے سے روکا جائے۔ ریاست بھی اگرچہ سخت موقف رکھتی ہے مگر قومی مفاد کی خاطر سیاسی دروازے بند نہیں کرنے چاہئیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ریاست محاذ آرائی کی سیاست کو مستقبل میں کبھی قبول نہیں کرے گی۔ اگر حالات ایسے ہی رہے تو پاکستان کیلئے سب سے بڑا خطرہ سیاسی انتشار نہیں بلکہ معاشی اور سکیورٹی عدم استحکام ہو گا۔ دنیا ایسے ممالک کو اکیلا چھوڑ دیتی ہے اور عالمی طاقتیں اپنی مرضی کی بساط بچھاتی ہیں۔ پاکستان اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

تازہ ترین