یہ بات چھٹی ہجری کی ہے اور علاقہ ہے شام کا۔ بادشاہ کا نام ’’امرائے سلطنت‘‘ ہے اور عدالت کے چیف جسٹس ہیں ’’شیخ عزالدین بن عبدالسلام۔‘‘ شام کے بادشاہ نسلاً ترک تھے اور مصر کےبادشاہوں کے ساتھ اچھے مراسم تھے۔ قاضی عزالدین نے فیصلہ دیا کہ چونکہ ’’امرائے سلطنت‘‘ کو رائج الوقت طریقے سے آزاد نہیں کیا گیا۔ لہٰذا یہ شام کے بیت المال کی ملکیت ہے۔ ان کو سرِعام بازار میں نیلام کیا جائے، یہ خریدا جائے، اس کو آزاد کیا جائے اور پھر یہ قانون کے مطابق بادشاہ کہلانے کے مستحق ہوں گے۔ متکبر بادشاہ، عدالت کے فیصلے کو کیسے برداشت کر سکتا تھا؟ لہٰذا وہ عدالت کے حکم پر بپھر گیا، غصے سے لال پیلا ہوگیا۔ قاضی عز الدین کو ’’ترغیب و ترہیب‘‘ ہر ممکن طریقے سے راضی کرنے کی بھر پور کوشش کی لیکن ان کی ’’نہ‘‘ کو ’’ہاں‘‘ میں تبدیل کرنے کا کوئی حربہ کامیاب نہ ہوسکا۔ ملک کے علماء مشائخ ،عوام اور سول سوسائٹی کے لوگ عدالت کے ساتھ تھے۔ احتجاج ہوئے، جلوس نکلے، لاٹھی چارج ہوا، گرفتاریاں ہوئیں لیکن مطالبہ وہی ایک تھا۔ بالآخر شام کے بادشاہ ’’امرائے سلطنت‘‘ کو عدالت اور عوام کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا۔ چنانچہ ان کو نیلام کرنےکیلئے بولی لگائی گئی۔ فروخت ہوا۔ بھاری بھر کم رقم وصول کرکے ملکی خزانے میں جمع کروادی گئی۔ پھر ملک کے حالات معمول پر آگئے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ اچھے ہوگئے۔ عدل و انصاف کے اس واقعے کے چرچے دور دور تک ہونے لگے۔ قارئین! ذرا تاریخ اسلام کے اس نادر واقعہ کو دیکھیے اور اور ہمارے معاشرے پر ایک نظر ڈالیے۔ قانون کو تو نسیم ِصبح کی سبک خرام اور صبحِ نو کی طرح پاک و شفاف ہونا چاہیے نہ کہ اس طرح کہ آنے والی نسلیں کلنک کے اسی ٹیکے کو دیگر اقوام سے چھپاتی رہیں اور اپنے ماضی پر شرمسار رہیں۔ یاد رکھیے گا جس طرح عزالدین بن عبد السلام کے واقعہ نے آپ کا سر فخر سے بلند کر دیا تھا اسی طرح آپ کی آنے والی نسلوں کا سر قیامت تک جھکائے رکھے گا۔ انصاف کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نےفرمایاتھا: ’’کوئی معاشرہ کفر کے ساتھ تو باقی رہ سکتا ہے لیکن انصاف کے بغیر نہیں۔‘‘ یہی وجہ تھی قرون اولیٰ میں امیرو غریب، خواندہ وجاہل، عوام وخواص، رعایا اور بادشاہ انصاف کے معاملے میں برابر ہوتے تھے۔ حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے آپ کو اس قانون سے بالاتر نہیں سمجھتے تھے۔ ایک دفعہ آپ نے مجمع عام سے مخاطب ہوکر فرمایا: ’’اگر میں نے کسی کے ساتھ زیادتی کی ہو تو وہ مجھ سے بدلہ لے لے۔‘‘ حضرت عمر فاروق نے اپنے دورِ خلافت میں تمام منتظمین کوجمع کرکے فرمایا: ’’ان میں سے اگر کسی نے انصاف میں کمی وکوتاہی کی ہو تو وہ بدلہ اسی وقت لے سکتا ہے۔‘‘ تاریخ ایسے واقعات اور مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ حکمرانوں نے احتساب کیلئے اپنے آپ کو عدالت میں پیش کیا۔ کوئی بھی سر براہ مملکت عدالت میں حاضری سے مستثنیٰ نہیں رہا۔ بڑے بڑے حکمران اور بادشاہ عدالت میں گئے۔ اپنے خلاف قائم ہونے والے مقدمات کا طوعاًو کرہاً سامنا کیا تو جان بخشی ہوئی۔ جب معاشرے میں بگاڑ آتا ہے تو اس کی بنیادی وجہ انصاف کا فقدان ہوتا ہے۔ ایسے معاشرے اجڑ جاتے ہیں جہاں انصاف کے پیمانے بدل جائیں۔ مشہور واقعہ ہے ایک طوطا طوطی کہیں جارہے تھے راستے میں ایک ویران جگہ دیکھی۔ طوطی نے پوچھا: ’’یہ شہر اور علاقہ کیوں تباہ ہوا؟‘‘ طوطے نے کہا: ’’اُلوئوں کی وجہ سے، کیونکہ یہ منحوس جانور ہے۔ جہاں بیٹھتا ہے اسے ویران کردیتا ہے۔‘‘ اُلو کہیں قریب ہی بیٹھا سن رہا تھا۔ اس نے جواب دیا: ’’نہیں! ایسا ہرگز نہیں! نحوست ہم اُلوئوں میں نہیں بلکہ بے انصافی میں ہوتی ہے۔‘‘ ہاں! یہ سچ ہے جہاں انصاف کا پیمانہ کمزوروں کیلئے الگ ہو اور طاقتوروں کیلئے دوسرا ہو، وہ معاشرہ کبھی پُرامن نہیں ہوسکتا ہے۔ وہاں ایسی دہشت گردی جنم لیتی ہے جو سب کا امن وسکون غارت کرکے رکھ دیتی ہے۔ صدیوں پہلے نبی آخر الزمان صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے انصاف سب کیلئے ایک جیسا ہونے کی تعلیم دی تھی۔ آپ نے ایک موقع پر یہاں تک فرمایا تھا: ’’تم سے پہلے جو اُمتیں گزری ہیں، وہ اسی لیے تو تباہ ہوئیں کہ کمتر درجے کے مجرموں کو قانون کے مطابق سزا دیتے تھے اور اونچے درجے والوں کو چھوڑ دیتے تھے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے۔ اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں ضرور اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘ جس معاشرے میں بھی انصاف قائم ہوا، وہ مثال بن گیا۔ وہ ترقی کرگیا۔ وہاں رزق کی کشادگی ہوگئی۔ وہاں جرائم ختم ہوگئے۔ جب کبھی انصاف کے پیمانے بدل گئے۔ کمزورافراد اور طبقوں کیلئے الگ اور طاقتوروں کیلئے دوسرا وہاں افراتفری شروع ہوگئی۔آج جگہ جگہ امن وامان کے گھمبیر مسائل ہیں۔ کہیں بھی امن وسکون نہیں۔ ہر جگہ بے چینی، اضطراب اور بے یقینی کی صورتِ حال ہے۔ اس وقت ہم امن و امان کے حوالے سے جس تباہی کے دہانے پر کھڑے ہے اور دہشت گردی نے سب کو اپنی لپیٹ میں لیاہوا ہے، اس کی ایک اہم وجہ عدل و انصاف کےبرابر پیمانے نہ ہونا ہیں۔