• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیارے قارئین! آج جب میں نے فریج کھولا اور ٹھنڈا پانی پینے کی کوشش کی تو برف نے احتجاجاً کہا۔’’پہلے بجلی کا بل دیکھو، پھر مجھے استعمال کرنے کی جرات کرنا!‘‘ اُس لمحے مجھے وہی سوال دل میں اُبھرتا محسوس ہوا جو آجکل پورے ملک میں دودھ والوں، سبزی والوں اور موٹر سائیکل والوں کے علاوہ ہر زندہ انسان کے دل میں اٹھ رہا ہے: ’’کہاں گیا وہ سستا زمانہ؟‘‘ سستا زمانہ...!وہی زمانہ جس میں کھجور بھی دس روپے کی تھی اور انسان بھی۔ وہ وقت جب دودھ بیچنے والا پوری ذمہ داری سے بتاتا تھا کہ’’بھائی جان! دودھ خالص ہے، بس تھوڑا سا پانی ڈال کے پتلا کیا ہے، تاکہ بچے آسانی سے پی لیں‘‘۔اور ہم بھی خوش ہو جاتے تھے کہ واہ بھئی! کم از کم پانی تو صاف ہے۔ آجکل تو دودھ والا بھی اتنا دبنگ ہے کہ مطمئن لہجے میں کہتا ہے:’’جی دودھ خالص ہے... بس تھوڑا سا دودھ ڈاکٹریٹ کیا ہے تاکہ زیادہ پیدا ہوسکے۔‘‘ اور آپ احتجاج کریں تو الٹا پوچھتا ہے: ’’میڈم! آپ کون سا شوگر کی مریض ہیں جو شکوہ کر رہی ہیں؟‘‘ ایک دور تھا جب آلو اور ٹماٹر کے ریٹ دیکھ کے لوگ اپنی عزتِ نفس بحال رکھتے تھے۔ آج کل آلو اتنے مہنگے ہو گئے ہیں کہ اگر آپ کسی کو تحفے میں آلو دیں تو وہ آپ کو گلے لگا کر کہےگا:’’ یار، دل ہی جیت لیا! ایسی سرمایہ کاری کی مجھے امید نہ تھی!‘‘ مجھے یاد ہے ہماری گلی کے سامنے حاجی صاحب کا جنرل اسٹور ہوتا تھا۔ ایک روپے میں دہی، دو روپے میں فینسی ٹافی، اور پانچ روپے میں پوری گلی کے بچوں کا پیٹ بھر جاتا تھا۔ آج آپ پانچ سو روپے لے کر نکلیں تو وہ صرف یہ بتانے کے کام آتے ہیں کہ’’ناک کے نیچے سے لوٹے گئے ہو‘‘، اور کچھ نہیں۔ کچھ دن پہلے مارکیٹ گیا تو دکاندار نے پیاز دکھا کر اتنی نرمی سے کہا جیسے میں کسی رشتے کیلئے آیا ہوں۔ہمارے ہاں ایک لفظ ہے جس نے معاشرت، سیاست، کاروبار، حتیٰ کہ شادیوں تک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، اور وہ ہے:’’ بھائی جان‘‘۔ یہ وہ لفظ ہے جو ہر شخص اپنی سہولت کے مطابق استعمال کرتا ہے۔جیسے سیاستدان ووٹ مانگتے ہوئے کہتے ہیں:’’بھائی جان! آپ کی خدمت کیلئے حاضر ہوں!‘‘ اور انتخابات کے بعد یہی بھائی جان،’’حاضر ہوں‘‘کی بجائے غائب ہوں کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ہمارے محلے کا ایک نوجوان تو ہر کام ’’بھائی جان‘‘سے شروع کرتا ہے کہ بھائی جان! بس دیکھ لیں... لیں یا نہ لیں آپ کی مرضی۔ ہمارے لیے تو توجہ دینا بھی باعثِ عزت ہے۔ پیاز کو ہاتھ لگایا تو ایسا لگا جیسے بیٹی کی منگنی میں جوڑا دکھایا جا رہا ہو۔قیمت پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی۔ مگر جب ہمت کی تو دکاندار نے جس وقار سے نرخ بتایا وہ سن کر مجھے لگا کہ میں پیاز نہیں، کسی پلاٹ کا سودا کر رہا ہوں۔ ہماری قوم کے ریٹ بھی عجیب ہیں۔ غریب آدمی جتنا چاہے مہنگائی پر چیخ لے، دنیا کی کوئی طاقت اسے سنجیدہ نہیں لیتی۔ لیکن جب کسی اینکر نے ٹی وی پر زور سے بول دیا کہ’’ملک تاریخ کی بدترین مہنگائی سے گزر رہا ہے! تو لوگ تین چار دن مطمئن ہو کر سوتے ہیں کہ چلو کوئی تو ہے جو ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ اخبارات میں بھی روز یہی تجزیہ ہوتا ہے:’’مہنگائی کی ذمہ دار سابقہ حکومت ہے۔‘‘اور سابقہ حکومت کہتی ہے:’’اِس حکومت کا مزاج ہی مہنگا ہے۔‘‘بس عوام درمیان میں ایسے کھڑے ہوتے ہیں جیسے دو شادی شدہ بہن بھائیوں کی لڑائی کے بیچ میں پھنسا ہوا ماموں۔ ایک دور تھا جب دال چاول غریب کا سہارا تھے۔ آج دال کے ریٹ دیکھ کر کوئی بزرگ روتے ہوئے اپنی بیوی سے کہتے ہیں!’’ آج گوشت ہی پکا لو… سستی چیز ہے۔‘‘جی ہاں! یہی ترقی ہے جس پر ہم سب فخر کر سکتے ہیں۔ پالک، گوبھی اور بھنڈی بھی اب ایسے بیہودہ ریٹ پر پہنچ گئی ہیں کہ انسان سوچتا ہے کہیں یہ سبزی نہیں، کسی سیاسی جماعت کے الیکشن ٹکٹ تو نہیں بیچ رہے؟ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ سستا زمانہ دراصل کوئی انسان تھا جو ناراض ہو کر کہیں چلا گیا ہے۔شاید اُس نے دیکھ لیا ہوگا کہ لوگ چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو بھول کر بڑے بڑے موبائل، برانڈڈ کپڑے اور انسٹا کی تصاویر کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ سستا زمانہ تو تب تھا جب سہولتیں کم تھیں، مگر دل بڑے تھے۔ ہم گاؤں جاتے تھے تو پورا محلہ ہمیں ایسے خوشی سے ملتا تھا جیسے ہم سعودی عرب سے سونا لے آئے ہوں۔ آج شہر میں اپنا پڑوسی دیکھ لے تو موبائل نکال کر ایسا مصروف ہو جاتا ہے جیسے ملک کی معیشت اُس کی جیب سے چل رہی ہو۔ میں کچھ دن پہلے اپنے دوست کے بیٹے کے اسکول گیا۔ فیس سن کر مجھے یوں لگا کہ میں نے پورا اسکول خرید لیا ہے۔ جب پرنسپل نے مزید بتایا کہ’’سر! یہ فیس صرف داخلے کی ہے، پھر کتابیں، بیگ، یونیفارم، شوز، ٹرم فیس، سیکورٹی فیس، کمپیوٹر فیس اور آخر میں بچوں کیلئے سالانہ پکنک فیس بھی ہے تو میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ بہتر ہے بچے کو کہیں درخت کے نیچے بٹھا کر خود پڑھا دوں... کم از کم دماغ تو ٹھنڈا رہے گا لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ مہنگائی نے ہمارے مزاج کو بھی عجیب بنادیا ہے۔ اب ہم ہر چیز پر فخریہ جملہ کہتے ہیں۔’’بھائی! مہنگائی ہے... سب برداشت کرنا پڑتا ہے!‘‘ یوں لگتا ہے جیسے ہم صدیوں سے مہنگائی کے عادی ہوں اور یہ ہمارا قومی کھیل ہو۔ یہاں تک کہ شادیوں میں بھی لوگ کھانا کھاتے ہوئے ایک دوسرے کو مشورہ دیتے ہیں:’’بھائی چکن زیادہ کھاؤ... مہنگا ہو رہا ہے!‘‘اور سامنے والی خاتون کہتی ہےمجھے تو پلاؤ ڈال دیں، چاول ہی سستا لگ رہا ہے۔ لیکن سچ پوچھیں تو سستا زمانہ کہیں نہیں گیا۔وہ وہیں ہے، ہمارے رویّوں کے نیچے دبا ہوا... لوگوں کی مسکراہٹوں میں، بچوں کی شرارتی آنکھوں میں، چھت پر بیٹھ کر ہوادار راتوں میں، اور ان گلیوں میں جہاں کبھی ہم بلاوجہ ہنسا کرتے تھے۔اصل سستا زمانہ وہ تھا جب چیزیں کم قیمت نہیں تھیں بلکہ ہم لوگوں کی قیمتوں کا انداز مختلف تھا۔ہم ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے، بات سنتے تھے، محلے کے بڑے چھوٹے کا احترام کرتے تھے، اور سب سے بڑھ کر...زندگی کو مہنگائی کے حساب سے نہیں، محبت کے حساب سے ناپتے تھے۔ لیکن خیر...یہ باتیں تو فلسفہ ہو گئیں، ابھی تو میں دکاندار سے پیاز لینے دوبارہ جانے لگا ہوں۔اللّٰہ خیر کرے! اگر اُس نے پیاز کی قیمت اور بڑھا دی تو شاید میں اسے رشتہ دار ہی بنا بیٹھوں کہ’’بھائی! اتنی قیمتی چیزیں سنبھالنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔‘‘آخر میں بس ایک سوال۔مہنگائی تو روز بڑھ رہی ہے،مگر کبھی ہم نے سوچا، اپنے رویے کب سستے کریں گے؟

تازہ ترین