• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ کہانی کسی ایک محفل، ایک گفتگو، ایک جملے یا ایک غصے کی نہیں۔ یہ ہماری اجتماعی ذہنی کیفیت کا پورا نقشہ ہے۔ چند روز قبل امریکی صدر ٹرمپ نے ایک خاتون صحافی کو سوال کرنے پر بہت بدتمیزی سے کہا، خاموش رہو سور کی بچی!ٹرمپ کے لہجے جیسا طنز، تلخی، گھٹیا پن، آج کل ہر گلی، ہر دفتر، ہر سوشل میڈیا تھریڈ اور ہر سیاسی خطاب میں دیکھا جا سکتا ہے۔ہم جس معاشرے اور دنیا میں رہتے آئے ہیں۔ وہاں گفتگو کبھی ایسی نہ تھی۔ نرم رویے، اچھے اخلاق، برداشت، ہم نے سب کچھ دیکھا اور آج غصہ، مایوسی ، تلخی اور گالی بھی دیکھ رہے ہیں۔ آج یوں لگتا ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرا کی طرح گفتگو کرنا ہی بھول گئے ہیں۔ بس ایک دوسرے پر تلخ الفاظ اور گالیاں برسا رہے ہیں، جو زخم بن جاتے ہیں۔ خاموش رہو! یہ ایک عام سا جملہ ہے، لیکن جس لہجے میں امریکی صدر کی جانب سے خاتون صحافی کو کہا گیا، اس میں گالی کی شدت اور تلخی بھی تھی۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے گفتگو ٹوٹتی ہے، رشتے کمزور ہوتے ہیں اور معاشرتی احترام ملیا میٹ ہونے لگتا ہے۔ زبان کا تشدد جسمانی تشدد سے کم نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مار پیٹ ہی تشدد ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ زبان سے کیا جانے والا حملہ کہیں زیادہ نقصان پہنچاتا ہے۔ گالی ایک لمحے میں دے دی جاتی ہے، لیکن اس سے پیدا ہونے والی تلخی برسوں دل میں رہ جاتی ہے۔ نفسیاتی ماہرین بارہا کہہ چکے ہیں کہ زبان کا تشدد انسان کی خود اعتمادی کو توڑ دیتا ہے، اسے مسلسل احساسِ کمتری اور غصے میں مبتلا رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گھر ہو، دفتر ،تعلیمی ادارہ یا سوشل میڈیا۔ گالی کا رجحان ہمارے معاشرے کے بگاڑ کی سب سے بڑی وجہ ہے۔کچھ روز قبل این سی اے ٹرینالے پر جنگ کے چیف ایگزیکٹو کی بڑی ہمشیرہ ایک ورکشاپ میں تشریف لائیں تو ان سے مل کر دل بہت خوش ہوا۔ نہایت شفیق، ملنسار، خوش گفتار۔ دل میں یہی خیال آتا رہا کہ یہ تھے وہ لوگ جو ہماری تربیت گاہ تھے۔ جن سے دنیا خوبصورت اور رہنے لائق ہے ورنہ امریکی صدر ٹرمپ صاحب بولنے سے پہلے کبھی سوچتے ہی نہیں۔ہم بھول چکے ہیں کہ معاشروں کی بنیاد احترام اور مکالمے پر ہوتی ہے۔ جب دونوں کمزور ہو جائیں تو معاشرہ بکھرنے میں دیر نہیں لگتی۔ آج ہمارے ہاں ہر سطح پر یہی صورتحال ہے۔ گھروں میں تلخی بڑھ گئی ہے۔ تعلیمی اداروں میں برداشت کم ہو گئی ہے۔ سڑکوں پر چھوٹی چھوٹی باتیں جھگڑوں میں بدل جاتی ہیں۔ گالی بہادری یا طاقت نہیں بلکہ کمزوری کی نشانی ہے۔ اس وقت ہمیں اپنے لہجے کی نگرانی کی ضرورت ہے۔ بچے وہی سیکھتے ہیں جو وہ گھر میں سنتے ہیں۔ غصے میں کہا گیا جملہ سینکڑوں لوگوں کو تکلیف دے سکتا ہے۔ بات چیت اختلاف کم کرتی ہے، جبکہ گالی اختلاف کو دشمنی میں بدل دیتی ہے۔ ہمیں کہیں نہ کہیں رک کر سوچنا ہو گا۔ اگر ایک معاشرہ روز مرہ گفتگو میں گالیوں کا قیدی بن جائے تو پھر وہاں دلیل ، وقار، برداشت اور تہذیب محدود ہو جائے گی۔ آج ہم سب اسی مقام پر ہیں۔ جہاں سے اخلاقی زوال شروع ہوتا ہے ۔ اسے روکنے کیلئے سب سے پہلے ہمیں اپنی زبان کو بچانا ہو گا کیونکہ معاشرے الفاظ سے بنتے اور بگڑتے ہیں۔زبان معاشرتی آئینہ ہے۔ ہماری زبان وہ کہتی ہے جو ہمارے اندر ہوتا ہے۔ اگر زبان بگڑ جائے تو سمجھ لیں کہ سب کچھ بگڑ چکا ہے۔ آج گالی عام ہے، مگر بات یہاں نہیں رکے گی۔ آج مذاق ، کل معمول، پرسوں ہماری پہچان ۔نفسیاتی ماہرین بارہا کہہ چکے ہیں کہ آدمی جب دلیل سے خالی ہو جائے تو ہاتھ نہیں اٹھاتا، الفاظ اٹھاتاہے۔ اور جو لوگ الفاظ کے ذریعے دوسروں کو زخمی کرنے لگیں، سمجھ لیں کہ وہ اندر سے شکست کھا چکے ہیں۔ آج سوشل میڈیا نے بھی بدتمیزی کو بے خوف کر دیا ہے۔ گھر میں مکالمے کی جگہ اسکرین نے لے لی ہے۔ ماں باپ تھکے ہوئے، بچے سیل فونز میں مصروف، بات چیت ختم، سمجھ ختم، برداشت ختم، تربیت ختم۔ گالی کا آغاز پہلے گھر سے ہوتا ہے، پھر محلے، دفتر، راستے اور سیاست تک پھیل جاتا ہے۔ یوں آہستہ آہستہ ایک پوری نسل تلخی کی تربیت لے لیتی ہے۔ آج پوری نسل کا مزاج بدل چکا ہے۔ ماہر سماجیات کہتے ہیں کہ کہیں کہیں گالی صرف غصے کی علامت نہیں ہوتی۔ یہ بے بسی کی بھی علامت ہے۔ جو معاشرے اندر سے بکھر رہے ہوتے ہیں، وہ پہلے خاموش ہوتےہیں۔ پھر ایک دم پھٹ پڑتے ہیں۔ آج ہماری گفتگو میں تلخی ہے۔ یہ اسی خاموشی کا ردّعمل ہے جو برسوں سے جمع ہوتی رہی۔ یہ تلخی بتا رہی ہے کہ لوگ بے چین ہیں، تھکے ہوئے ہیں، ذہنی دبائو کا شکار ہیں۔ اب سوال یہ ہےکہ کیا اس بگاڑ کا کوئی حل بھی ہے؟ ہاں ہے اور بہت سادہ ہے۔ گالی کو نارمل سمجھنا چھوڑ دیں یہ بہادری نہیں، کمزوری ہے۔ گھروں میں خوش مزاج گفتگو کریں۔ گھر کی زبان پورے معاشرے کا لہجہ طے کرتی ہے۔ اختلاف کے باوجود احترام برقرار رکھیں۔ اختلاف رائے معاشرے کو جاندار بناتا ہے۔ لیکن بدزبانی اسے برباد کر دیتی ہے۔اگر آج ہم ایک دوسرے کو بات بات پر’ خاموش رہو‘ کہنے لگے ہیں تو سوچنا ہو گا کہ کیا ہم بات نہیں کرنا چاہتے؟ یا ہم سن ہی نہیں سکتے؟ یا ہم نے زبان کو صرف غصہ نکالنے کا آلہ بنا لیا ہے؟ جب زبان تلخ ہو جائے تو محبت مر جاتی ہے۔ ہمیں اپنی زبان بچانی ہو گی، ورنہ آنے والی نسلیں صرف چیخنا سیکھیں گی، بات کرنا نہیں!

تازہ ترین