کچھ لوگ کتابیں لکھتے ہیں، کچھ تقریریں کرتے ہیں، اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو بولتے بھی ایسے ہیں جیسے کتاب خود ان سے سیکھ کر نکلی ہو۔ قاسم علی شاہ کا تعلق اسی تیسری قسم سے ہے۔ وہ بولتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے الفاظ قطار میں کھڑے ہوں، ہر لفظ نے ٹائی لگائی ہو اور ہر جملہ کامیابی کے انٹرویو کیلئے آیا ہو۔ میں نے قاسم علی شاہ کو پہلی بار سنا تو دل میں ایک عجیب سا خوف پیدا ہوا کہ اگر یہ صاحب ہمیں واقعی کامیاب بنا گئے تو پھر ہم بہانے کس بات کے کریں گے؟ ہم تو برسوں سے ناکامی کو قومی ورثہ سمجھتے آئے ہیں۔ یہاں کامیابی کوئی حادثہ سمجھی جاتی ہے اور محنت ایک مشکوک فعل۔ قاسم علی شاہ کی گفتگو کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ ہر مسئلے کا حل ایک سانس میں دے دیتے ہیں۔ اگر آپ غریب ہیں تو قصور آپ کا ہے، اگر امیر ہیں تو بھی آپ کی محنت کا نتیجہ ہے، اور اگر آپ کچھ نہیں ہیں تو یقیناً آپ نے ابھی تک قاسم علی شاہ کو غور سے نہیں سنا۔ وہ بتاتے ہیں کہ دن میں چار بجے اٹھنا ضروری ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جو قوم فجر کے بعد دوبارہ سو جائے، اسے چار بجے جگانے کیلئے ایک انقلابی نہیں بلکہ انقلابیوں کا باپ ہونا چاہئے۔ لیکن قاسم علی شاہ پورے اعتماد سے کہتے ہیں:
’’کامیاب لوگ چار بجے اٹھتے ہیں‘‘ہم سوچتے ہیں: اور ناکام لوگ؟شاید وہ نیند پوری کرتے ہیں۔ قاسم علی شاہ کی ہر تقریر میں کم از کم تین ایسے جملے ضرور ہوتے ہیں جن کے بعد سامع فوراً سر ہلانا شروع کر دیتا ہے، چاہے اسے کچھ سمجھ آیا ہو یا نہیں۔ مثال کے طور پر:’’اگر آپ نے اپنے مائنڈ سیٹ کو ٹھیک کر لیا تو دنیا آپ کے قدموں میں ہوگی‘‘۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر دنیا قدموں میں آ گئی تو جوتے کون صاف کرے گا؟ ان کے لیکچرز میں کامیابی اتنی آسان لگتی ہے کہ بندہ سوچتا ہے، اگر یہ سب اتنا ہی سیدھا ہے تو ہم اب تک ناکام کیوں ہیں؟ غالباً اس لیے کہ ہم نے نوٹ بک نہیں نکالی۔ قاسم علی شاہ نوجوانوں کے لیے کسی روحانی موٹیویشنل پیر سے کم نہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہاں دم کے بجائے ’گول سیٹ‘دیا جاتا ہے، تعویذ کے بجائے روٹین اور چلہ کشی کے بجائے سیلف ڈسپلن۔
وہ اکثر کہتے ہیں:’’آپ کو اپنے دوست بدلنے ہوں گے‘‘ہم سوچتے ہیں: دوست بدلنا اتنا آسان ہوتا تو شادی بھی آسان ہو جاتی۔ قاسم علی شاہ کی باتوں میں ایک عجیب سی معصومیت ہے۔ وہ سچے دل سے یقین رکھتے ہیں کہ اگر آپ نے روزانہ دو کتابیں پڑھ لیں، تین گھنٹے نیٹ ورکنگ کر لی، چار گھنٹے ورزش کر لی، پانچ گھنٹے مراقبہ کر لیا اور چھ گھنٹے نیند لے لی تو آپ کامیاب ہو جائیں گے ہم حساب لگاتے ہیں تو پتا چلتا ہے دن میں اب بھی چار گھنٹے کم پڑ گئے ہیں۔ ان کی مثالیں بڑی عالمی ہوتی ہیں۔ کبھی جاپان، کبھی امریکہ، کبھی دبئی۔ پاکستان کا ذکر آئے تو عموماً بطور وارننگ آتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ فلاں ملک میں لوگ وقت کی قدر کرتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ یہاں تو وقت خود ہمیں دیکھ کر رفتار کم کر لیتا ہے۔ قاسم علی شاہ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ مایوسی کو قریب نہیں آنے دیتے۔ وہ امید ایسے بانٹتے ہیں جیسے شادی پر مٹھائی۔ چاہے سامنے والا بیروزگار ہو، ٹوٹا ہوا ہو، یا موبائل کی قسطوں میں پھنسا ہو، قاسم علی شاہ اس کو بھی نیکسٹ لیول دکھا دیتے ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ قاسم علی شاہ ہماری اجتماعی نفسیات کی ایک ضرورت ہیں۔ ایک ایسی قوم جو ہر وقت حالات کو کوستی ہو، اسے کوئی تو چاہیے جو آئینہ دکھائے، چاہے آئینہ تھوڑا فلٹر لگا کر ہی کیوں نہ ہو۔ وہ ہمیں یہ احساس دلاتے ہیں کہ ناکامی تقدیر نہیں، عادت ہے۔ اور عادت بدلی جا سکتی ہے ۔ خاص طور پر اگر آپ نے ان کا یوٹیوب چینل سبسکرائب کر رکھا ہو۔ آخر میں میں صرف اتنا کہوں گا کہ قاسم علی شاہ کو سننا ایسے ہے جیسے کوئی آپ کو بتائے کہ آپ بہت خاص ہیں، بس مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو یہ بات آج تک خود معلوم نہیں تھی اور اگر اس احساس کے بعد بھی آپ کامیاب نہ ہوں، تو گھبرائیں نہیں قصور آپ کا نہیں، شاید آپ چار بجے نہیں اٹھے۔