• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رات گئے یوٹیوب کو اسکرول کرتے ہوئے اچانک پاکستان کے معروف یوٹیوبرسعد الرحمان عرف ڈکی بھائی کی ویڈیو کے سامنے ہاتھ اچانک رک گئے ، وہ ابھی چند روز قبل ہی سو دن سے زائد این سی سی آئی کی قید میں رہ کر رہا ہوئے اور ان کے بارے میں بہت کچھ سننے کو ملا ، اچانک وہ خود اپنی آپ بیتی سناتے نظر آئے تو سنے بغیر رہا نہ گیا ، رات کے سناٹے میں جب میں نے ڈکی بھائی کی وہ ویڈیو چلائی جس میں وہ تین ماہ سے زیادہ جیل کی تنگ و تاریک دیواروں کے اندر گزرے دنوں کو بیان کر رہے تھے تو یوں لگا جیسے اسکرین سے کوئی سرد ہوا نکل کر میرے چہرے سے ٹکرائی ہو۔ ڈکی بھائی کی آواز میں جو کرب تھا وہ محض ان کا دکھ نہیں تھا، وہ اس معاشرے کی دہائی تھی جہاں انصاف کبھی کبھی صرف اس کے دروازے پر دستک دیتا ہے جس کے پاس آواز ہو، جسے لوگ جانتے ہوں، جس کا دکھ ٹرینڈ بن سکتا ہو۔ ڈکی بھائی خوش قسمت تھے کہ انہیں بگ برادر مل گیا۔ انہیں وہ ہاتھ میسر آگیا جس کی ایک جنبش سے میڈیا جاگ اٹھا، ادارے حرکت میں آگئے اور انصاف کی بند کھڑکی ذرا سی کھل گئی۔ مگر جیل کے اندھیروں میں رہنے والے، عدالتوں کےبرآمدوں میں کھڑے ہزاروں پاکستانی ایسے ہیں جن کے پاس نہ آواز ہے، نہ پہچان، نہ کوئی کندھا۔ وہ بھی ظلم سہتے ہیں، ان کی مائیں بھی روتی ہیں، ان کے باپ بھی تھکتے ہیںاور انکی بیگمات بھی در در کی ٹھوکریں کھاتی ہیں، مگر ان کی کہانی پر کوئی ویڈیو نہیں بنتی، کوئی نیوز پیکیج نہیں چلتا۔ انہی ہزاروں خاموش چہروں کے بیچ ایک نام ڈاکٹر نسیم شہزاد کا بھی ہے۔ یہ و ہ شخصیت ہیں جنہیں پاکستان اور سنگاپور دونوں نے سر آنکھوں پر بٹھایا۔ پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں تمغہ امتیاز، ہلال امتیاز اور ہلال پاکستان جیسے عظیم قومی اعزازات بھی دیئے۔ دوسری طرف سنگاپور نے نہ صرف ڈاکٹر نسیم شہزاد بلکہ ان کے باصلاحیت صاحبزادے کو بھی ملکی سطح کے اعلیٰ ترین اعزازات سے نوازا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے علم اور کردار سے دونوں ملکوں کا مان بڑھایا، دونوں ریاستوں کا اعتماد جیتا۔ مگر زندگی کی کتاب ہمیشہ اعزازات کے باب پر ختم نہیں ہوتی۔ ایک صفحہ پلٹتا ہے اور منظر بدل جاتا ہے۔ پاکستان کی خدمت کا جذبہ، بیرون ملک سے کمائی ہوئی دولت سے پاکستان میں سرمایہ کاری کا خواب، پھر کراچی جیسے شہر میں کریک مرینہ کی صورت میں ایک کاروباری اشتراک اور پھر کاروباری اختلافات کی وہ لکیر جو ابتدا میں معمولی تھی مگر رفتہ رفتہ گہری ہوتی گئی۔ پھر ایک دن ان پر ایسے جعلی مقدمے کھڑے کر دیےگئے کہ عقل سوال کرنے لگتی ہے۔ ڈاکٹر نسیم شہزاد پر منی لانڈرنگ جیسے سنگین الزامات درج ہوئے جنکے ثبوت کہیں نہیں۔ اور پھر وہ مقدمہ بھی ایسا جس پر شاید دنیا کےکسی بھی کونے میں ہنسی اور افسوس دونوں آ جائیں سنگاپور سے پاکستان بینک کے ذریعے پیسے بھیجنے پر منی لانڈنگ کا مقدمہ درج ، ان کے ایک اسٹاف نے صرف اپنے وزٹنگ کارڈ پر صرف ایک لفظ ’’ڈائریکٹر‘‘ لکھ لیا۔ غلطی اگر تھی بھی تو اسٹاف کی تھی مگر پیکا کا مقدمہ ڈاکٹر نسیم شہزاد کیخلاف بنا دیا گیا۔ پھر ایک اور باب کھلتا ہے خطرناک دھمکیوں کا دبائو، ریاستی مخالفت کا خوف ، وفاقی تحقیقاتی ادارے کے افسران کی جانب سے۔ انہیں بار بار کہا گیا:’’آپ کے پیچھے حساس ادارے لگے ہیں،اوپر سے حکم آیا ہے‘‘۔ان دونوں باپ بیٹوں سے کروڑوں اینٹھنے کی کوششیں ہوئیں، انہیں مسلسل غلط بیانی سے دباؤ میں رکھا گیا۔ اور پھر وہ لمحہ جس نے ظلم کو حد سے آگے دھکیل دیا ان کے بیٹے عمر شہزاد کا نام بھی ایف آئی آر میں شامل کر دیا گیا۔ ایک نوجوان جس نے پاکستان کا نام دنیا میں بلند کیا، سنگاپور کا فخر بنا، جسے عالمی کاروباری ادارے عزت اور اعزازات سے نوازتے ہیں ، اسے بھی ڈاکٹرنسیم شہزاد کو بلیک میل کرنے کا ہتھیار بنا دیا گیا۔ آج کل انھیں ریڈ وارنٹ کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟ ڈاکٹر نسیم شہزاد کی درخواست آج بھی وہی ہے: شفاف، منصفانہ، غیر جانبدار تحقیقات۔ وہ یہ درخواست وزیراعظم پاکستان تک بھی پہنچا چکے ہیں، ڈی جی ایف آئی اے کو بھی دے چکے ہیں، فیلڈ مارشل کو بھی دے چکے ہیں، مگر انصاف کی گلی میں جیسے ابھی تک خاموشی کا پہرا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اوورسیز پاکستانیوں سے ہمیشہ ہمدردی رکھتے ہیں،وہ بھی ڈی جی ایف آئی اے کو ہدایت دے چکے ہیں کہ کیس کی دوبارہ منصفانہ تحقیقات کی جائیں ۔ اوورسیز پاکستانیوں سے فیلڈ مارشل عاصم منیر کی محبت اور پدرانہ رویہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ، ان کی سنجیدگی اور ان کا محبت بھرا رویہ کہ وہ بیرون ملک پاکستانیوں سے پروٹوکول توڑ کر ملتے ہیں، قوم جانتی ہے۔ ڈکی بھائی کا کیس بھی انہی کی توجہ سے کھلا۔ مگر سوال یہ ہے کیا ڈاکٹر نسیم شہزاد اور ان جیسے بے شمار پاکستانی کم اہم ہیں؟ کیا انکی آنکھوں میں اُترے دکھ کی قیمت کم ہے؟ وزیراعظم صاحب، آرمی چیف صاحب، آپ کے ایک فیصلے سے بند راستے کھل جاتے ہیں۔ ایک ہاں سے امید جاگ اٹھتی ہے۔ جس طرح ڈکی بھائی کو انصاف ملا، اسی طرح ڈاکٹر نسیم شہزاد، ان کے بیٹے عمر شہزاد اور وہ ہزاروں پاکستانی جن کے پاس کوئی بگ برادر نہیں وہ بھی آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ براہِ کرم، شفاف تحقیقات کا دروازہ کھول دیں۔ ان سے ناانصافی کی گرد ہٹا دیں۔ اور ثابت کریں کہ پاکستان طاقتور کی ریاست نہیں، کمزور کی پناہ گاہ ہے۔

تازہ ترین