(گزشتہ سے پیوستہ)
انسٹیٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ نہ صرف ڈاکٹروں اور اسپتال کی ایڈمنسٹریشن کیلئے کام کر رہا ہے بلکہ وہاں ڈاکٹر عائشہ عثمان کی نگرانی میں آٹزم اور اے ڈی ایچ ڈی کے مرض میں مبتلا بچوںکیلئے ایک خوبصورت سیکشن بنایا ہوا ہے اور ڈاکٹر عائشہ عثمان ان بچوں کی بالکل اپنے بچوں کی طرح ہی سینٹر میں دیکھ بھال کرتی ہیں وہ انسٹیٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ میں ڈیپارٹمنٹ آف پریونٹو پیڈی ایٹرکس کی پہلی سربراہ ہیں ان کی ذہنی نشوونما کو بہتر کرتی ہیں اس سینٹر میں نوجوان لڑکیوں اور خصوصاً پہلی مرتبہ ماں بننے والی خواتین کو لیکٹیشن سپورٹ فراہم کی جاتی ہے۔ یہ سینٹرز مختلف اسکولوں میں جا کر بچوں کی بصارت کو چیک کرتے ہیں اور جن بچوں کی بصارت کمزور ہو ان کی نظر چیک کر کے انہیں عینکیں بھی فراہم کرتے ہیں اور بچوں کی جنرل ہیلتھ بھی چیک کرتے ہیں۔ اس سینٹر کو مزیدوسیع کرنا چاہئے۔ ہمارے معاشرے میں بے شمار بچے آٹزم کا شکار ہیں۔آئی پی ایچ میں ڈاکٹر عائشہ عثمان جس مہارت اورجانفشانی سے آٹزم اور اے ڈی ایچ ڈی میں مبتلا بچوں کا علاج کر رہی ہیں وہ لائق تحسین ہے۔ ہم نے اس سینٹر کا خود وزٹ کیا پورے ڈیپارٹمنٹ کو خوبصورت رنگوں، بہترین فرنیچر اور بچوں کی دلچسپی کی اشیاء کے ساتھ مزین کیا گیاہے۔ ضرورت اس بات کی ہے لاہور میں آٹزم میں مبتلا بچوں کیلئےمزید علاج گاہیں ہونی چاہئیںاور دیگر سرکاری اسپتالوں میں آئی پی ایچ کےاس بچوں کے شعبے کی طرح مزید شعبے قائم کرنے چاہئیں۔ لاہور میں پاکستان کا پہلا آٹزم کاا سکول جلد ہی کام شروع کر دے گا حکومت کی جانب سے اس اسکول میں وہ آٹزم کے بچے جو فیسیں ادا نہیں کر سکتےفری تعلیم حاصل کریں گے۔ دبئی سے ایک ٹیچر اس اسکول میں کام کرنے کیلئے خوشی سے آئی ہیں جو بہت ماہر ہیں۔ بہرحال حکومت کو ابھی کئی شعبوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے اس پر پھر بات کریں گے۔ لاہور میں 155 ایکڑ پر ایسا باغ ہے جو بالکل شہر کے وسط میں ہے آج بھی کوئی باغ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا اگرچہ حکومت نے لاہور میں کئی باغات بنائے ہیں مگر مغل دور کے شالامار باغ اور لارنس گارڈن باغ( جناح باغ) کاکوئی مقابلہ نہیں ۔لارنس گارڈن واحد باغ ہے جو آج بھی صدیوں پرانی شکل و صورت میں تقریباً محفوظ ہے لاہور شہر میںشالامار باغ کے بعد اس سے خوبصورت اور قدیم پارک کوئی نہیں یہ علیحدہ بات ہے کہ لاہور میں کبھی مغلوں ہندوؤں اور سکھوں کے تعمیر کردہ کئی باغات تھے مگر ان میں سے اکثر زمانے اور قبضہ مافیا کی نذر ہو گئے۔ صبح اور شام کی سیرکیلئے یہ ایک بہترین باغ ہے یہ صرف ایک باغ نہیں بلکہ ایک بوٹنیکل گارڈن بھی ہے یہاں پر تین مزار ،دو کلب اور ٹینس کورٹ ،قدیم جم خانہ کرکٹ کلب بھی ہے اور4 قدیم پہاڑیاںبھی ہیں۔ جہاں سے انگریز دور میں دن کے پورے12 بجے ایک گولا داغاجاتا تھا جس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ دن کے 12 بج چکے ہیں۔ لاہور اتنا صاف ستھرا اور شور سے پاک تھا۔ ہمیں یاد ہے کہ ہمارا گھر جو کہ ریٹی گن اور ٹیپ روڈ پر تھا وہاں تک چڑیا گھر سے شیر کے دھاڑنے کی آوازیں اوربادامی باغ ریلوے اسٹیشن سے بھاپ والے انجن کے چلنے اور وسل کی آواز سنائی دیتی تھی اور قریبی دیہات سے چکی اور پانی والے انجن کی مخصوص ہک ہک کی آواز سنائی دیتی تھی۔ ارے بابا کیا خوبصورت لاہور تھا پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز شریف لاہور کو جدید تو بنا سکتی ہیں مگر ہمارے زمانے کا اور اس سے بھی پہلے کے لوگوں کا لاہور کبھی بھی واپس نہیں لا سکتیں۔ کچھ شہروں کا حسن ان کی قدامت اور پرانی روایات سے جڑا ہوتا ہے لاہور چونکہ صدیوں پرانا شہر ہے تو اس کا حسن اس کی قدیم تہذیب ثقافت روایات اور پرانی عمارات سے تھا جو ہم نے ختم کر دی ہیں ۔اورنج ٹرین ، میٹرو ٹرین اور پتہ نہیں کون کون سی ٹرینوں نے اس کے تہذیبی ثقافتی حسن کو ختم کر دیا ہے ۔چلیے اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہیں ،لارنس گارڈن میں ایک اوپن ائیر تھیٹر ہے جو کئی برس بند پڑا رہا حال ہی میں اس اوپن ائیرتھیٹر کو کھول دیا گیا ہے پرانے لاہور یئے تو شاید جانتے ہوں کہ لارنس گارڈن جنا ح باغ کو کبھی لاہور کےپھیپھڑے کہا جاتا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں پر اتنے زیادہ گھنے درخت تھے جو آج بھی ہیں کہ انسان کو واقعی اس جگہ باقاعدہ ٹھنڈک کا احساس ہوتا تھا۔جو لوگ لارنس گارڈن واک کیلئےآتے ہیں وہ پھر کسی اور جگہ واک نہیں کرتے کیونکہ یہاں کا ماحول واقعی آپ کو کچھ دیر کیلئے ولایت کے کسی قدیم باغ میں لے جاتا ہے خاموش ،پرسکون ماحول ،صرف قدموں کی چاپ یا سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں یہاں پر ہم نے ایسے افراد سے ملاقات کی ہوئی ہے جو 50 سے 70 برس تک اس باغ میں باقاعدگی سے واک کیلئے آتے رہے ہیں ۔ کبھی ہر اتوار کو یہاں پر فوجی بینڈ کا مظاہرہ بھی ہوا کرتا تھا لارنس گارڈن میں انگریزوں نے تفریح کیلئے 1941 میں اوپن ائیر تھیٹر بنایا تھا لال اینٹوں کی سیڑھیوں پرلوگ بیٹھ کر کر اسٹیج ڈرامے، ثقافتی پروگرام اور گانوں کے پروگرام لائیو دیکھا کرتے تھے۔ ہم نے بھی کبھی یہاں پر کئی ڈرامے دیکھے ہیں ۔کبھی یہاں پر برس ہا برس حیات احمد اور آ ل پاکستان میوزک کانفرنس بھی کراتے رہے ۔لارنس گارڈن کا اوپن ائیر تھیٹر حضرت توت شاہ رحمت اللہ علیہ اور ان کی ہمشیرہ کےمزار مبارک کے لارنس گارڈن کے نزدیک والے دروازے کے ساتھ ہے۔سامنے ایک چھوٹی سی پہاڑی پر ہے۔ اس اوپن تھیٹر میں گرمیوں اور خصوصاً اکتوبر، نومبر میں پروگرامز دیکھنے کا اپنا ہی لطف ہے۔ گورنمنٹ کالج ، ایچیسن کالج لاہور اور کنئیرڈ کالج میں بھی اوپن ائیرتھیٹر ز ہیں ۔کنئیرڈ کالج کا اوپن ائیرتھیٹرمسز پیرن بگاکے نام پر ہے جو ایک پارسی پروفیسر ہیں ۔ انہوں نے طویل عرصہ کنئیرڈکالج میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیے۔ لارنس گارڈن کے اوپن ایئر تھیٹر میں آج سے چار سال پہلے تمام ثقافتی سرگرمیوں کو بند کر دیا گیا تھا اب چار سال بعد دوبارہ اس اوپن تھیٹر کی رونقیں بحال کر دی گئی ہیں ۔(جاری ہے)