• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اڈیالہ کا ’’مکین‘‘ اور واحد سیاسی راستہ

افواج پاکستان کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کی حالیہ پریس کانفرنس سیاسی و غیر سیاسی حلقوں میںموضوع گفتگو بنی ہوئی ہے پچھلے تین سال سے فوجی ترجمان نے پریس کانفرنسوں میں دھیمے اندازمیں اپنا مدعا بیان کیا ہے لیکن پہلی باران کے لب و لہجہ میں تلخی محسوس کی گئی ہے ۔پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان نےنیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی ورکشاپ میںشرکت کرنیوالےپارٹی پارلیمنٹیریز کو’’ غدار‘‘ قرار دیا انکی نظر میں پارٹی کے ان ارکان کی یہ گستاخی ایک نا قابل معافی ہے۔ عمران خان کی طرف سے طاقت ور لوگوں سے بات کرنے کا عندیہ دیا جاتا تھا اب انہوں نے مایوس ہو کرحکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے قطع تعلقی کا اعلان کر دیا ہے۔ پہلی بار اسٹیبلشمنٹ نےعمران خان کی طرف سے فوجی قیادت سے ملاقات کرنیوالےپی ٹی آئی ممبران کو غدار قرار دینے کا سخت نوٹس لیا ہے۔فوج کے ترجمان نےپریس کانفرنس کرکے ان کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کا جواب دینا ضروری سمجھا۔ فوج کے ترجمان نے کوئی بات دل میں رکھے بغیر کھل کر بات کی ہے جسکی حدت پاکستان کے طول و عرض میں محسوس کی گئی ہے۔ پی ٹی ا ٓئی کی قیادت نے عمران خان کو’’ ذہنی مریض ‘‘قرار دینے پر افسوس کا اظہار کیا، تاہم فوجی ترجمان کی باتوں کا اسی لب و لہجہ میں جواب دینے سے مصلحتاًگریز کیا۔پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت شروع دن سے دوغلی پالیسی کا شکار رہی ہے ایک طرف اسٹیبلشمنٹ سے معافی تلافی کیلئے کوشاں رہی تو دوسری طرف آنکھیں دکھانے کی پالیسی اختیار کیے رکھی، یہ اسی دوغلی پالیسی کا شاخسانہ ہے عمران خان کو جیل میں اڑھائی سال ہو گئے ہیں۔ 26نومبر 2024کوسیاسی افق پر انہونی ہونی ہونےوالی تھی کہ عمران خان طے شدہ فارمولے سے ایک قدم پیچھے ہٹ گئے،جسکے باعث انکی رہائی کا عمل رک گیا اور انکی جیل یاترا نے طوالت اختیار کر لی۔ جیل میں مہینہ مہینہ بھر کی قید تنہائی نےعمران خان کے اعصاب پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں اور شدید غصے کے عالم میں جہاںاسٹیبلشمنٹ سے راہ رسم پیدا کرنے والوں کو غدار قرار دے رہے ہیں وہاں انہوں نے پارٹی قیادت کو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے مذکرات سے روک دیا ہے ،سیاسی کمیٹی تحلیل کر کے پارٹی کے تمام اختیارات عقاب صفت رہنما سلمان اکر م راجہ کو سونپ دئیے ہیں ،پارٹی بادشاہوں کی طرح چلائی جا رہی ہے ،ان کے معاندانہ طرز عمل نے پہلی بار فوج کے ترجمان کو کھل کرجواب دینے پر مجبورکیااور لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے نام لئے بغیر ان کو’’ ذہنی مریض ‘‘اور قومی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیا۔ تھری سٹار جنرل نےعمران خان کو مخاطب کر کے کہا کہ ’’تم اپنے آپ کوکیا سمجھتے ہو؟کون ہو جو غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹ رہے ہو ؟اس شخص کا باپ بھی فوج اور عوام میں دراڑ نہیں ڈال سکتا‘‘ بات یہیں ختم نہیں ہوئی انہوں نے کہا کہ ’’بیٹوں کو باہر رکھا ہوا ہے ذرا انہیں خوارج کے آگے کھڑا تو کرو‘‘لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کی یہ پریس کانفرنس جواب الجواب نہیں تھی بلکہ فوج کا پیغام تھا کہ (Enough is Enough) بہت ہو گیابرداشت کی ایک حد ہوتی ہے۔انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ’’ہم کہیں نہیں جا رہے جب تک پاکستان ہے فوج رہے گی‘‘۔قبل ازیںحکومت پی ٹی آئی کے الزامات کے جوابات دے ہی رہی تھی اب میدان میں فوج بھی موجود ہے اسکی بنیادی وجہ ایکس پر عمران کے الزامات اور انکی ہمشیرہ عظمیٰ خان کا عمران خان سے ملاقات کے بعدبیان جاری کرنا ہے ۔عام تاثر یہ ہے کہ عمران خان کی سیاست کا خاتمہ کیا جا رہا ہے لیکن عملاً یہ ناممکن نظر آتا ہے سوشل میڈیا پر عمران خان کے فالوورز کی تعداد سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے ماضی میں کسی سیاست دان کو عوام میں اس حد تک پذیرائی حاصل نہیں ہوئی جتنی عمران خان کو حاصل ہے یہ پذیرائی ووٹ کی حدتک تو درست ہے لیکن اسٹریٹ پاور سے تہی داماں ہے ۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف عمران خان کی اس منطق پر برہم دکھائی دیئے کہ ’’میں نہیں تو کچھ نہیں ‘‘۔ فوج کے ترجمان نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کر دیا ہے کہ مسلح افواج اور اس کی قیادت پر مزید حملے برداشت نہیں کئے جائیں گے ۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کیا پریس کانفرنس کر دی سوشل میڈیا پر ان کے عظیم والدچوہدری سلطان محمود کی ٹرولنگ شروع کر دی گئی ہے ان کو دہشت گرد قرار دینے کی ناپاک مہم شروع کر دی گئی ہے۔مجھے ان کے ساتھ ایک دو نشست بات چیت کرنے کا موقع ملا ہے،چوہدری سلطان محمود کا صرف یہ’’ جرم ہے‘‘ کہ انہوں نے ڈاکٹر اے کیو خان سے مل کر پاکستان کو ایٹمی قوت بنا نے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔اگرچہ فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ اس شخص کی سیاست ختم ہو چکی ہے ۔میرے خیال میں عمران خان کے طرز تکلم سے ان کے لئے سیاست میں مشکلات تو بڑھ سکتی ہیںلیکن سیاست کا خاتمہ ممکن نہیں،انہوں نے نارسسٹ(متکبر ، ذات کا قیدی اورذہنی مریض) کا لفظ استعمال کیا ہے۔پریس کانفرنس میں اسلام آباد کے علاوہ دوسرے شہروں سے ان اینکرز کو بھی مدعو کیا گیا جو عمران خان کی وکالت کرتے رہتے ہیں۔انہوں نے پوری پریس کانفرنس خاموشی سے سنی کوئی سوال کیا اور نہ ہی کسی رد عمل کا اظہار کیا ۔عمران خان اڑھائی سال سے جیل میں ہیں لیکن ان کا ایکس پر اکائونٹ ایکٹو ہے اور وہ مسلسل فوج کو رگیدتے رہتےہیں ۔ شنید ہےکہ پی ٹی آئی کی قیادت کو دو ٹوک الفاظ میںکہہ دیا گیا ہے کہ عمران خان یا پارٹی کے سوشل میڈیا کی طرف سے پاک فوج اور اسکی قیادت کے خلاف کسی بھی طرح کی تضحیک آمیز مہم برداشت نہیں کی جائے گی ۔ پارٹی کو پیغام دیا گیا ہے کہ ’’ بس بہت ہو چکا‘‘ پی ٹی آئی کے پارلیمانی حلقوں کی طرف سےسیاسی حل کا واحد راستہ بات چیت قرار دیا جارہا ہے لیکن نقارخانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے؟

تازہ ترین