انیسویں صدی کے اوائل میںجب لبرٹادور سیمون بولیوار نے اسپینی تاج کی صدیوں پرانی آہنی گرفت کے خلاف آزادی کا علم بلند کیا تو لاطینی امریکہ کا ہر گوشہ امید اور اضطراب کے سنگم پر کھڑا تھا۔ وینزویلا، جو اس عظیم جدوجہد کا مرکز بنا ایک ایسے مستقبل کی طرف بڑھ رہا تھا جسکی روشنی میں نئی شناخت کی چمک تھی مگر اسی روشنی کے ساتھ تاریخ کے بوجھ سے لدی اندیشوں کی مہک بھی سرایت کر رہی تھی۔ بولیوار کی آنکھوں میں جو خواب تھا وہ ایک ملک کی آزادی کا نہیں بلکہ پورے براعظم کو سامراج سے نجات دلانے کا تھا۔
بیسویں صدی کے آغاز میں جب اس سرزمین کے سینے میں تیل کی سیاہ دولت پھوٹی تو دنیا نے اس سرزمین پراپنی نظریں گاڑ دیں۔ یہ دولت وینزویلا کو خطے کی امیر ترین ریاست بنا سکتی تھی لیکن صدافسوس یہی دولت ایک آفت اور درد سربن گئی۔ جس میں بیرونی مفادات، اندرونی اشرافیہ، طاقتور کارپوریشنز اور عالمی سیاست سب اکٹھے الجھنے لگے۔ Monroe Doctrine نے اس خطے کی تقدیر میں ایک نیا باب رقم کیا۔ ایک ایسا باب جس میں واشنگٹن نے لاطینی امریکہ کو اپنے دائرہ اثر میں بند کر دیا اور ذاتی مفادات کیلئےاسےگویا مستقل چراگاہ بنا لیا۔ School of Americas جیسی تربیتی درسگاہوں میں فوجی افسروں کو یہ سبق پڑھایا جاتا کہ قوم سے پہلے امریکہ، جمہوریت سے پہلے مفاد اور انسان سے پہلے معاشی ڈھانچہ ہماری اولین ترجیحات ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ گوئٹےمالا سے چلی تک، ارجنٹائن سے ڈومینیکن ریپبلک تک ہر ملک میں امریکی ایماپر طاقتور جرنیلوں نے عوامی حکومتوں کو تہس نہس کرکے روند ڈالا۔ امریکی کارپوریشنز زمینوں، بندرگاہوں اور پھلوں کے باغات پر قابض رہیں۔ Banana Republics محض اصطلاح نہیں بلکہ ایک پوری نسل کی سیاسی محرومیوں اور معاشی غلامی کی داستان تھی۔یہ ابدی سچائی ہے کہ ظلم حد سے تجاوز کرجائےتو سوال جنم لیتے ہیں۔ بیسویں صدی کے وسط میں یہی سوال عوامی بغاوتوں، انقلابی تحریکوں اور سماجی احتجاج کے روپ میں سراٹھانے لگے مگر ہر جگہ وہی کہانی دہرائی گئی۔ جہاں بھی عوام نے جمہوریت اور خودمختاری کا جھنڈا لہرایا اور جبر کے خلاف علم بغاوت بلندکیا وہاں امریکی حمایت یافتہ آمریتیں ٹانگیں اڑا کر بیٹھی رہیں۔ 1973 کا چلی یقینی طورپر ایک ایسا زخم ہے جو آج بھی تاریخ کے سینے پر ترو تازہ ہے ۔ جب جنرل پنوشے نے سی آئی اے کی مدد سے چند گھنٹوں میں ایک منتخب جمہوریت کو خاک میں ملا دیا اور ہزاروں انسانوں کو بےگناہ موت کی گھاٹ اتار دیا۔اسی تاریک فضا میں وینزویلا سے ہوگو شاویز ابھرا۔ ایسا رہنما جس نے غریبوں کو پہلی بار بتایا کہ تیل صرف امیروں کی جاگیریا ملکیت نہیں ۔ یہ انکے بچوں کی دوا، ان کی چھت، ان کی عزت اور مستقبل کا حق ہے۔ 1998 سے پہلے وینزویلا کا تیل امریکی کارپوریشنز کے ہاتھ میں تھا اور ریاست صرف وہ Crumbs دیتی تھی جو بڑی کمپنیاں چھوڑ دیتیں۔ شاویز نے جب اسے قومی تحویل میں لیا تو امریکی ایوانوں میں آندھیاں چل پڑیں۔وہ تلملااٹھا اور پھر وہی پرانا کھیل شروع ہوا یعنی میڈیا کابےبنیاد پروپیگنڈا، معاشی جنگ، سیاسی بغاوتیں اور بالآخر 2002کی فوجی بغاوت۔ مگر عوام کی شعوری جدوجہد، بے باک جرات مندی اور دیدہ دلیری کےسبب محض 48 گھنٹے میں فوجی قبضہ ناکام بنا کر دنیا کو یہ سبق دیا کہ اصل طاقت بندوق کی نہیں بلکہ عوام کی اجتماعی بصیرت اور شعور کی ہوتی ہے۔شاویز نے بولیویرین معاشی ماڈل کی بنیاد رکھی۔ صحت، تعلیم، خوراک اور رہائشی اسکیمیں، تمام مفت تھااور یہ سب تیل ہی کی آمدن سےممکن ہوا ۔ امریکہ کیلئے یہ منظر انتہا ئی ناخوشگوار اورناگوار تھا کیونکہ ایک خوشحال، بااختیار اور بیدار لاطینی امریکہ اس کی پالیسیوںکیلئے مسلسل خطرہ بن رہا تھا۔ شاویز کے انتقال کے بعد مادورو نے اقتدار سنبھالا تو وراثت میں بحرانوں کا ایسا گرداب ملا جس میں تیل کی قیمتوں کا زوال، اندرونی سیاسی جنگ، عالمی پابندیاں، میڈیا ئی یلغار اور اسٹرٹیجک غلطیاں سب ایک ساتھ سامنے منہ کھولے کھڑی تھیں۔ امریکہ نے معاشی پابندیوں کا شکنجہ کسا، ملک کا نقدی نظام ٹوٹنے لگا ۔ اسی دوران چین نےحالات کامکمل جائزہ لےکر مکمل مستعدی کےساتھ پورے خطے میں تجارتی اثر بڑھایا اور دو صدیوں بعد پہلی بار امریکہ اس خطے کا سب سے بڑا تجارتی شریک نہ رہا۔ یہ تبدیلی واشنگٹن کیلئےکسی زلزلے سے کم نہ تھی۔اس حوالے سے تازہ ترین صورتحال یہ ہےکہ اب ایک بار پھر منظر بدل رہا ہے۔ کیریبین سمندر میں امریکی بحریہ کی نقل و حرکت، وینزویلن کشتیوں کی تباہی اور بے بنیاد الزامات یہ سب ایک خطرناک صورتحال کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ وینزویلا پرروزافزوں جنگ کے بادل گہرے ہو تےدکھائی دیتے ہیں۔ان بادلوں میں تیل کی مہک بھی ہے اور بارود کی بو بھی۔ یہ منظر وہی ہے جو عراق، لیبیا اور افغانستان میں دیکھا گیا۔یعنی مکروفریب کی وہی پالیسی جھوٹے الزامات، عالمی اداروں کی نظراندازی، جنگ کو ناگزیر بنا کر پیش کرنا اور وسائل پر مکمل قبضہ یہ سب ایک فلم کی طرح دہرایا جا رہا ہے۔ کچھ عالمی ماہرین اورتجزیہ نگاروں کی رائے یہ بھی سامنےآرہی ہے کہ وینزویلا کی اپوزیشن لیڈر ماریہ کورینا کو نوبل انعام دینا بھی اسی فلم کا ایک سین ہے۔ تاریخ میں اکثر ایسے مناظر استعمال کیے گئے: کبھی ’’جمہوریت کی بحالی‘‘ کے نام پر، کبھی ’’انسانی حقوق‘‘ کے نعرے پر، کبھی ’’ڈکٹیٹر کو ہٹانے‘‘ کے جواز پر۔ اصل مسئلہ ایک ہی ہے اور وہ ہے وسائل پر ناجائز قبضے کاحصول ممکن بنا نا۔ یہی وہ پس منظر ہے جسکے بغیر وینزویلا کی آج کی سیاست، معیشت اور عالمی تنہائی کو سمجھنا ممکن نہیں۔ یہ کہانی صرف وینزویلا کی نہیں، افغانستان، عراق، لیبیا، شام، ایران، کیوبا، نکاراگوا، بولیویا سب کی ایک ہی کہانی، ایک ہی رسم یاایک ہی کھیل اورڈرامہ تھاجوامریکہ بہادر نےماضی میں رچایا ۔دنیاجسکےاثرات سےآج بھی گھائل نظرآتی ہے۔