• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معاشرے میں باصلاحیت افراد کو ان کی تعلیمی قابلیت پر ملازمت یا ترقی دینا میریٹو کریسی کہلاتی ہے ۔یونانی فلاسفر افلاطون کے مطابق ترقی یافتہ معاشرہ بننے کیلئے ضروری ہے کہ میرٹ کی پالیسی کو اختیار کیا جائے ۔فادر آف میریٹو کریسی برطانوی فلاسفر مائیکل ینگ نے 1946 ء میں پہلی بار تعلیمی قابلیت کو میرٹ کیلئے ضروری قرار دیا ۔میرٹ پر ملازمت دینا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے جو حکومت میرٹ کی بنیاد پر ملازمت دیتی ہے اس کی ساکھ عوام میں اچھی ہوجاتی ہے لیکن اگر حکومت میرٹ کی خلاف ورزی کرے تو اس سے باصلاحیت نوجوانوں میں احساس محرومی پیدا ہو جاتا ہے جس کے ملکی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

نیو لیبر فورس کے سروے کے مطابق پاکستان میں بیروزگاری کی شرح 7.1 فیصد ہے جوکہ پچھلے 21 برسوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ بے روزگاری کی شرح سب سے زیادہ صوبہ کے پی کے پھر پنجاب اور بلوچستان میں ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں زیادہ بیروزگاری ہونے کے ساتھ ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ میرٹ نام کی کوئی چیز نہیں۔ تمام سرکاری ملازمتوں میں میرٹ کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں ۔بے روزگاری اتنی ہے کہ چند اسامیوں کے لیے ہزاروں درخواستیں آ جاتی ہیں جس کی تگڑی سفارش ہو یا دینے کو بھاری رقم ہو نوکری کا ہما اسی کےکاندھے پر بیٹھتا ہے۔ ملک میں بھرتیوں کے اعلیٰ ادارے وفاقی اور صوبائی پبلک سروس کمیشن موجود ہیں مگر ان کے وسیلے سے بھی زیادہ تر نوکریاں تگڑی سفارش والوں کو ملتی ہیں اور جس کیلئے اصول و ضوابط میں تبدیلیاں بھی کر لی جاتی ہیں۔ اس طرح غریب اور متوسط گھرانوں کے نوجوان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود محروم رہ جاتے ہیں۔

سفارشی کلچر پر آنے والوں کی وجہ سے محکموں کا معیار بھی گرتا جا رہا ہے۔ جب ہم میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل ہوئے تو تمام کلاس نے پبلک سروس کمیشن کا امتحان دیا زیادہ تر وہ طلبہ و طالبات منتخب ہوئے جو آؤٹ آف میرٹ تھے اس تمام کرپشن کی وجہ انٹرویو میں نمبرنگ سسٹم ہے۔ میں نے جب پنجاب میں وزارت صحت کا قلمدان سنبھالا تو پتہ چلا کہ بنیادی مراکز صحت اور رورل ہیلتھ سنٹرز میںمختلف قسم کی تعیناتیوںکے لیے نمبرنگ سسٹم رائج ہے جس کے تحت حکومت پنجاب میں ان مراکز میں6مہینے کام کرنے والے میڈیکل آفیسر ڈاکٹر کو 5نمبر ،ایک سال کام کرنے والے کو 10نمبراور 2سال جاب کرنے والے کو 20 نمبر دیے جاتے ہیں۔ان نمبروں کا فائدہ یہ ہے کہ جب ڈاکٹر پوسٹ گریجویشن کرنا چاہتا ہے تو ان نمبروں کی بنیاد پر اُس کی پوسٹ گریجویشن سلیکشن آسانی سے ہوجاتی ہے۔ ہم سے پہلے بنیادی مراکز صحت اور رورل ہیلتھ سنٹرز کی یہ سیٹیں 10 سے 12لاکھ روپے تک میں بکتی تھیں یا اگر کوئی تگڑی سفارش والا ہوتا تو اس کی سلیکشن ہو جاتی تھی۔ کرپشن کا دور دورہ تھا اور ہمارے ملک کے لائق ڈاکٹرز جن کی نہ تو سفارش اور نہ ہی دینے کیلئے 10 سے 12 لاکھ روپے تھے وہ ان تعیناتیوں سے محروم ہو جاتے تھے۔ اس وجہ سے زیادہ تر سرکاری کالجز سے بننے والے ڈاکٹرز جو انتہائی لائق ہوتے ہیں وہ باہر چلے جاتے ہیں ۔ وہاں ان کو اچھی نوکریاں بھی مل جاتی ہیں اور عزت بھی۔

میں نے اپنے سیکرٹری علی جان کی معاونت سے ایک میرٹ سسٹم کی بنیاد ڈالی ۔اس سے قبل یہ طریقہ رائج تھا کہ انٹرویو کے 25نمبر رکھے جاتے تھے۔سچ تو یہ ہے کہ ساری کرپشن انہی 25نمبروں کی وجہ سے ہوتی تھی ۔ہم نے اس پالیسی کو تبدیل کیا۔ہماری پہلی کوشش تو یہ تھی کہ میں انٹرویو میں کسی قسم کے کوئی نمبر ہی نہ رکھوں کیونکہ جب ایک ڈاکٹر بڑی اور مستند یونیورسٹیوں سے MBBS کرکے آیاہے تو اس کو انٹرویو کے اس عمل سے دوبارہ نہیں گزارناچاہیے ۔اس بات پر بیوروکریسی کی طرف سے بڑا پریشر رہا کہ ہم نمبروں میں کمی نہ کریںلیکن ہم نے پھربھی یہ نمبر25سے کم کر کے 5 کر دیے اور 95 نمبر میرٹ پر دیئے جس کا فائدہ یہ ہوا کہ ہمارے دور میںمختلف جگہوں پرایک ہزار کے قریب میڈیکل آفیسرز کی تعیناتی عمل میںلائی گئی اورہماری اس پالیسی کی وجہ سے تقرریوں کی مدّ میں ہونے والی کرپشن میں 80کروڑسے ایک ارب روپے کی بچت ہوئی۔

مختلف سرکاری محکموں میں تعیناتی میں کرپشن کی بنیادی وجہ یہ انٹرویو کے نمبر ہیں جن کی بنا پر سفارشی اور رشوت دینے والے افراد کو فائدہ ہوتا ہے ۔میری رائے یہ ہے کہ انٹرویو کے نمبر کم اور کیرئیرسے متعلق صلاحیتوں کے نمبر زیادہ رکھے جائیں ۔ کرپشن کے مروجہ طریقے ختم کرکے ہم محکمہ صحت سمیت سبھی محکموں میں میرٹ کو فروغ دے سکتے ہیں ۔اس سے ہمیں باصلاحیت ، محنتی،باکردار افسران اورملازمین میسر آ سکتے ہیں۔میرٹ کی بالادستی ملکی ترقی و خوشحالی میں بھی معاون ثابت ہو سکتی ہے۔

تازہ ترین