مقام بنگلور، موقع پاک انڈیا پیس کانفرنس اور سن دوہزار ۔صبح ناشتے کے بعد گیسٹ ہاؤس کے بڑے سے ہال میں سینکڑوں کا مجمع دائرے کی صورت امڈ آیا ہے۔ مجمع کے بیچ ، کرسی پر سندھ کے معروف سیاست دان اور مفکر رسول بخش پلیجوبراجمان ہیں اور اپنی شعلہ بیانی سے تمام شرکاء کو متاثر کر رہے تھے۔ ـ رسول بخش پلیجو 1930 میں جنگ شاہی میں پیدا ہوئے ـ چالیس سے زائد کتابوں کے مصنف، انسانی حقوق کے وکیل رسول بخش پلیجو پاکستانی سیاست میں ایک معروف سیاست دان بن کر ابھرے ـ انھوں نے 1970میں بائیں بازو کی جماعت عوامی تحریک کی بنیاد رکھی اور آخری دم تک بائیں بازو کی سیاست اور مارکسی نظریے سے جڑے رہے۔ قوم پرستی اورصوبائی خود مختاری کے حامی ہونے کے باعث کئی بار جیل گئے اور کئی برس قید وبند کی صعوبتیں بھی کاٹیں ۔ جنرل ضیاء کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد کراچی میں تحریک بحالی جمہوریت(ایم آر ڈی) 6فروری 1981کو قائم ہوئی۔ ایم آر ڈی پاکستان کی گیارہ جماعتوں کا سیاسی اتحاد تھا ـ رسول بخش پلیجو اور ان کی جماعت کا اس تحریک میں کلیدی کردار شامل رہا۔ اس اتحاد کا بنیادی مطالبہ ملک میں جمہوریت کی بحالی اور آزادانہ انتخابات کا انعقاد تھا۔ گو کہ جلد ہی ایم آر ڈی ملک گیر مزاحمتی تحریک بن گئی لیکن مزاحمتی تحریک کی جو شدت سندھ میں تھی وہ دوسرے صوبوں میں ناپید تھی ـ ۔رسول بخش پلیجو جہاندیدہ سیاستدان تھے سو انھوں نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سندھ کی خواتین کو سیاست میں لانے کیلئے نہ صرف راہ ہموار کی بلکہ انھیں سیاسی میدان میں آگے آنے کی ترغیب بھی دی اور حوصلہ افزائی بھی کی ـ 1982 میں عوامی تحریک کے بطن سے عورتوں کی سب سے بڑی تنظیم سندھیانی تحریک کا جنم ہوا۔ ـ سندھیانی تحریک کی کونپلیں پھوٹی تو لاڑ کے علاقے یعنی بدین، ٹھٹھہ اور حیدر آباد سے لیکن جلد ہی پورا سندھ اس تحریک سے زرخیز ہوتا چلا گیا ۔ـ رسول بخش پلیجو، فاضل راہو، چاچا قاسم اور دیگر ساتھیوں نے سب سے پہلے اپنے گھر اور خاندان کی خواتین کو گھرداری اور چاردیواری سے باہر نکال کر سیاسی میدان میں اتارا ـ چونکہ عوامی تحریک کے ہر کارکن کے گھر کی عورتوں نے سندھیانی تحریک میں شمولیت اختیار کی تو سندھ کی دیہی اور ہاری عورتوں کو تنظیم سے منسلک ہونے میں جو ہچکچاہٹ تھی وہ بتدریج کم ہونے لگی ـ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دیہی ، شہری خواتین جوق در جوق اس تحریک کا حصہ بنتی چلی گئیں اور کارواں بنتا گیا ۔ـ
شہید فاضل راہو کی بیٹی شہناز راہوسندھیانی تحریک کی پہلی صدر مقرر ہوئیں ۔ـ بعدازاں وہ ان خواتین رہنماؤں میں شامل رہیں جو کارکنوں کی باقاعدہ سیاسی تعلیم و تربیت کی ذمہ دار تھیں۔ مریم راہو نے بھی تنظیم سازی اور دیہی اور ہاری خواتین کی سیاسی تربیت کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ـ حور پلیجو اورخدیجہ کیڑانو جیسی پڑھی لکھی خواتین نے تحریک کے کارکنوں کو سیاست کے اسرارو رموز بڑی خوبی سے سکھائے ۔ رسول بخش پلیجو کی اہلیہ زاہدہ شیخ بھی سندھیانی تحریک کی متحرک ممبر اور صدر کے عہدے پر بھی فائز رہیں۔ ـ ہنجانی لانجو کا شمار بھی قابل ذکر ممبران میں ہوتا ہے ـ
اس تنظیم کا آغاز جنرل ضیاء کے نافذ کیے گئے عورت دشمن قوانین کے خلاف ایک منظم تحریک سے ہوا لیکن جلد ہی ان خواتین نے ایم آر ڈی میں مرد ساتھیوں کے شانہ بشانہ مارشل لاکے خلاف احتجاجی سیاست میں حصہ لیا، گرفتاریاں دیں اور طویل عرصے تک جیلیں کاٹیں ۔ سندھیانی تحریک کی مارشل لا کے خلاف مزاحمت اور مسلسل جدوجہد نے سندھ کی خواتین میں سیاسی شعور کو بڑھاوا دیا جو آگے چل کر عورتوں کے حقوق کی راہ ہموار کرنے کا باعث بنا۔ ـ سندھیانی تحریک میں شامل خواتین رہنماؤں نے قومی جدوجہد کے ساتھ طبقاتی اور صنفی جدوجہد پر بھی زور دیا ـ ۔خواتین کی آگہی کے لیے سندھ میں برسوں سے رائج جاگیردارانہ نظام کی خرافات جن میں وٹہ سٹہ و کم عمری کی شادی، کاروکاری کے خلاف جلسے جلوس نکالے اور عوامی رابطہ مہم بھی چلائی ۔ سندھیانی تحریک بلاشبہ پاکستانی تاریخ میں خواتین کی سب سے بڑی اور متحرک تحریک کا درجہ رکھتی ہے اور جو بھی خواتین اس تحریک کا کسی بھی دور میں حصہ رہیں وہ خود کے لیے اسے ایک اعزاز سمجھتی ہیں۔ ـ ٹوٹ پھوٹ کے باوجود سندھیانی تحریک آج بھی فعال ہے اور گاہے بگاہے سیاسی و سماجی مسائل پر اپنا موقف بھی پیش کرتی رہتی ہے ۔ ـ خواتین کی اتنی اہم اور بڑی تحریک ایک منظم جماعت بننے کی اہل تھی اگر یہاں بھی پدر شاہی سوچ آڑے نہ آجاتی ـ۔ جن خواتین کے لیے دہلیز سے قدم نکالنا بھی مشکل تھا انھوں نے آمریت کے خلاف لڑنے، مرنے میں مردوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا ـ اگر ان کی انتظامی ، سیاسی اور سماجی صلاحیتوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تو شاید سندھیانی تحریک سے وابستہ خواتین ملکی سیاست پر گہرے اور مثبت اثرات مرتب کرنے کا باعث بنتیں۔ یہ امر بعدازقیاس ہرگز نہیں کہ اگر سندھیانی تحریک کو ذیلی تنظیم نہیں بلکہ ایک آزاد تنظیم تسلیم کیا جاتا انھیں فیصلے سازی کے اختیارات اور آزادی حاصل ہوتی تو غالباً سندھیانی تحریک ایک تنظیم کے بجائے آج خواتین کی سیاسی جماعت ہوتی ۔