• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلے ہم بہ طور معاشرہ سقوطِ ڈھاکا کو یاد کیا کرتے تھے، بڑے بڑے سیمینار ہوتے، سربرآوردہ لوگ تقریریں کرتے، اخبارات خصوصی ایڈیشن چھاپا کرتے تھے۔ مشرقی پاکستان کیوں علاحدہ ہو گیا، ہم سے کیا کوتاہیاں ہوئیں، ہمیں اس سانحے سے کیا سبق سیکھنا چاہیے، یہ سب سوال اٹھائے جاتے تھے۔ حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کا ذکر بھی سننے میں آیا کرتا تھا، جس میں ملک ٹوٹنے کے اسباب درج تھے۔ یہ مطالبہ بھی اس موقع پر خصوصاً فضا میں گونجا کرتا تھا کہ اس رپورٹ کو مزید نہ چھپایا جائے، کیوں کہ بیماری کی تشخیص چھپانے سے مرض ختم تو نہیں ہو جاتا، بلکہ اور بگڑتا ہے۔ بہرحال رپورٹ مشتہر نہ کی گئی۔پھر 16ویں دسمبر 2014 کو اے پی این ایس سکول کا سانحہ گزر گیا، معصوم بچوں اور اساتذہ کو دہشت گردوں نے ایک بہیمانہ کاروائی میں شہید کر دیا۔ ہم نے اس تاریخ کو ریاستی سطح پر منانا شروع کیا تاکہ دہشت گردوں کو شکست دینے کے عزم کی تجدید ہوتی رہے۔ پیاری بیٹی باران نے بتایا کہ اس سال اسکے سکول میں 16 دسمبر کی چھٹی نہیں دی گئی۔ دو دن قبل اے پی این ایس شہداء فورم کے صدر اجون خان نے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ سانحے پر خصوصی جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو 11 سال سے چھپایا جا رہا ہے، کم از کم اسے شہید بچوں کے والدین کے ساتھ تو شئیر کیا جائے۔ یاد رہے کہ بیماری کی تشخیص چھپانے سے مرض رفع نہیں ہوا کرتا۔

سقوطِ ڈھاکا اور اے پی این ایس سانحے سے ہم نے کیا سبق سیکھا، اور ہم نے کیا تیاری کی کہ آئندہ ایسے سانحے کبھی نہ ہوں؟ مشرقی پاکستان کے اسباق بہت سیدھے تھے۔ وفاق میں شامل اکائیوں کو مسلسل سیاسی، معاشی اور معاشرتی برابری کا احساس رہنا چاہیے۔ اور اگر عدم مساوات کا احساس راہ پا بھی جائے تو اس نظام میں پرامن طور پر بہتری لانے کی امید زندہ رہنی چاہیے، اور اگر یہ امید بھی دم توڑ جائے تو ریاست جغرافیائی طور پر بکھرے نہ بکھرے، نفسیاتی سطح پر پارہ پارہ ہو جاتی ہے۔ یہ سبق بھی واضح تھا کہ علاقائی وسائل پر پہلا حق اس علاقے کاہے۔ اور غالباً سب سے بنیادی سبق یہ تھا کہ شفاف انتخابات لازم ہیں اور اسکے نتائج مِن و عن تسلیم کرنا اس سے بھی ضروری ہے۔ خواجہ ناظم الدین کو نکالنے، حسین شہید سہروردی کی تذلیل کرنے، جگتو فرنٹ کی حکومت ختم کرنے، مادرِ مِلت محترمہ فاطمہ جناح کو الیکشن ہروانے، 1969 میں بنگالی سپیکر کو اقتدار دینے کے بجائے یحیٰ خان کو اقتدار سپرد کرنے کے باوجودوفاق گھسٹتا رہا۔ لیکن آخرِ کار واضح انتخابی برتری کے باوجود جب ان حق حکم رانی تسلیم نہ کیا گیا تو فیصلہ کن موڑ آ گیا، بنگالیوں کی ’’امید‘‘ دم توڑ گئی۔ اور جب امید ختم ہو جائے تو پرامن جدوجہد کا راستہ بند ہو جاتا ہے۔ بنگال میں یہی ہوا۔ ہم نے بہ طور ریاست اس سارے قضیے سے جو’’سبق‘‘ سیکھے ہیں انکے مظاہر آپ پچھلے 55 سال دیکھتے رہے ہیں اور آج بھی دیکھ رہے ہیں۔ یار لوگوں نے سانحہِ مشرقی پاکستان سے غالباً یہ سبق سیکھا کہ شفاف انتخابات سے ملک دولخت ہو سکتا ہے، لہٰذا اس ’’حرکت‘‘ سے ہر حال میں بچا جائے۔ آئین، پارلے مان، انصاف اور آزادی اظہار کے ابواب میں جو’’اسباق‘‘ ہم نے سیکھے ان کی ایک طویل فہرست ہے، اور آپ کے سامنے ہے۔

اسی طرح اے پی این ایس سانحے سے بھی کچھ سبق سیکھنے ضروری تھے۔ جب پرائی جنگوں میں حصہ لیا جاتا ہے تو انکے شعلے آپ کے گھر کو بھی جھلسا دیتے ہیں، جب جنگجوؤں کے جتھے تیار کئے جاتے ہیں تو جنگ ان کا پیشہ بن جاتا ہے، جنگ رک جائے تو وہ بھوکے مر جائیں، لہٰذا ان جتھوں کی بقا دائمی جنگ میں ہے۔ ٹی ٹی پی ہم نے بنائی تھی۔ جنگ بند ہوئی تو اس نے ہمارے خلاف جنگ شروع کر دی۔ پھر ہم نے ان دہشت گردوں کے خلاف بہت سے آپریشن کئے، کچھ کام یابی بھی ہوئی، لیکن پھر ایک طُرفہ تماشا ہوا۔ ہم نے جن عناصر کو بھگایا تھا، انہیں دوبارہ لا کر اپنے درمیان آباد کرنا شروع کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ جو بھی سبق ہم نے اے پی این ایس کے سانحے سے سیکھے تھے، کیا انکے نتیجے میں ہم دہشت گردی سے دور آ چکے ہیں؟ اور جو اسباب مشرقی پاکستان کی علاحدگی پر منتج ہوئے تھے، کیا آج کے پاکستان سے مٹا دیے گئے ہیں؟ کیا ان سوالوں کے جواب پر دو آراء پائی جاتی ہیں؟ ہرگز نہیں!

قوموں سے غلطیاں ہو جاتی ہیں، ریاستوں کی زندگی میں سانحے ہو جاتے ہیں۔ قوموں کے مستقبل کا فیصلہ مگر وہ سبق طے کرتا ہے جو ان حادثوں سے سیکھا جاتا ہے، وہ قومیں سنبھل جاتی ہیں جو حفاظتی بند باندھتی ہیں کہ دوبارہ کبھی وہ سانحہ نہ ہونے پائے۔ صرف ایک مثال دیکھیے۔ جرمنی ہٹلر کے زیرِ نگیں دیوانگی کا شکار ہو گیا تھا، اس کا نسلی برتری کا خناس یہودیوں کے قتلِ عام پر منتج ہوا تھا۔ نئے جرمنی نے اپنے تمام اداروں کی بنیاد نسلی برابری کے گارے سے چنی ہے، انہوں نے ہر شعبے میں اس بات کا شعوری اہتمام کیا ہے کہ یہ دیوانگی دوبارہ کبھی نہ ہونے پائے، جرمنی آج بھی نیورمبرگ قوانین کا دن یاد رکھتا ہے، جس دن جرم کو قانون کا حصہ بنایا گیا تھا، جس میں جج، بیوروکریٹ، اور سب اداروں کو یہ یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ یہ جرمنی کا اجتماعی گناہ تھا۔ اور اس طرزِ احساس کی بنیاد سکولوں کے نصاب میں رکھی جاتی ہے۔ اور دوسری طرف ہم نے اپنی ملکی تاریخ کے سب سے بڑے سانحے سے جو سبق سیکھا ہے اس کا اندازہ ہماری نصابی کتب سے کیا جا سکتا ہے، جن میں آج تک مشرقی پاکستان کی علاحدگی کی سب سے بڑی وجہ’’ہنود کی سازش‘‘ قرار دی جاتی ہے۔ مرڈر آف ہسٹری کرنے والوں کو تاریخ اپنی کُند چُھری سے ذبح کر دیا کرتی ہے۔

تازہ ترین