• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ 1958 کے آخری ایام تھے جب ادھیڑ عمر کا ایک شخص پاکستان کے شہر منٹگمری میں مقیم ہزاروں میل دور جرمنی میں واقع شہرِ میونخ کو اپنی چشمِ تصور میں بسائے بیٹھا تھا۔ اس شہر سے کوسوں دور، وہ میونخ کی کھلی، سرد فضا اور کرسمس کی آمد کے احساس کو محسوس کر رہا تھا ۔ اردو شاعری کو ایک نئے آہنگ سے روشناس کرنیوالے اس شخص نے اس کیفیت کو اپنے مخصوص انداز میں لفظوں کا روپ دیا، اور یوں اردو ادب کو دوام بخشنے والی ایک اور نظم’’میونخ‘‘ وجود میں آئی ۔ اسکا خالق کوئی اور نہیں، اردو کا معروف شاعر مجید امجد تھا۔آج سے تقریباً 70سال پہلے مجید امجد نے میونخ کا جو نقشہ اپنے تصور کی مدد سے لفظوںمیں کھینچا وہ آج کے میونخ سے کچھ مختلف نہ تھا۔’’آج کرسمس ہے/شہرِ میونخ میں/ آج کرسمس ہے/رودبارِ عسار کے پل پر/جس جگہ برف کی سلوں کی سڑک /فان کاچے کی سمت مڑتی ہے/قافلے قہقہوں کے اُترے ہیں/آج اس قریۂ شراب کے لوگ/ جنکے رخ پر ہزیمتوں کا عرق/ جنکےدل میں جراحتوں کی خراش/ ایک عزمِ نشاط جو کے ساتھ/ اُمڈآئے ہیںمست راہوںپر/ بانہیں بانہوںمیں، ہونٹ ہونٹوں پر/برف گرتی ہے ساز بجتے ہیں۔‘‘نومبر کے آغاز سے ہی میونخ کے مختلف حصوں میں Weihnachts markt یعنی کرسمس مارکیٹس سجنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو کرسمس تک جاری رہتا ہے۔ روشنی اور زندگی سے بھرپور یہ بازار آہستہ آہستہ پورے شہر کو اپنے سحر میں لپیٹ لیتے ہیں، اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میونخ چند ہفتوںکیلئے کسی افسانوی بستی کا منظر پیش کر رہا ہو۔ اس شہر کی مرکزی کرسمس مارکیٹ Marienplatz میں سجتی ہے۔ زیرِزمین ٹرین اسٹیشن سے باہر قدم رکھتے ہی منظر یکسر تبدیل ہو جاتا ہے۔ انسان اپنے آپ کو ایک طلسماتی دنیا میں محسوس کرتا ہے۔ برقی قمقموں کی روشنی ناظر کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے، نگاہیں بے اختیار سامنے موجود عظیم الشان راٹ ہاوس Rathaus کی عمارت پر جا ٹھہرتی ہیں۔ نیو گوتھک طرزِ تعمیر کی یہ بلند و بالا عمارت کسی عجوبے سے کم نہیں۔ ایک زمانے میں یہ عمارت میونخ کا میونسپل دفتر اور سرکاری تقریبات کا مرکز تھی۔فضا میں چارسو تیز خوشبو کا احساس ہوتا ہے۔ یہ خوشبو قریب لگے اسٹالز پر بکنے والی گرما گرم Glühwein کی ہوتی ہے۔ یہ مشروب عام طور پر دستیاب سرخ یا سفید شراب میں دارچینی، الائچی اور سنگترے کے چھِلکوں میں ڈال کر تیار کی جاتی ہے اور کرسمس مارکیٹ کی خصوصیت گردانی جاتی ہے۔اسی اثنا میں دور سے بجتی سریلی دھنیں کانوں میں رس گھولتی ہیں۔ ہر اسٹال پر منفرد سجاوٹ کا منظر ہوتا ہے — کہیں چمکتے ستارے، کہیں لکڑی کے تراشیدہ کھلونے، کہیں رنگ برنگی گھنٹیاں اور کہیں سانتا کلاز کی مختلف اقسام۔تیس میٹر بلند روشنیوں میں گھرا کرسمس ٹری زائرین کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے اور وہ اسکے ارد گرد اکھٹے ہو کر اس منظر کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کر لیتے ہیں۔ اسی چمک دمک اور بھیڑ میں میں لکڑی کے ایک بنچ پر بیٹھا زمانے کی بوالعجبیوں پر غور کر رہا تھا۔ وقت کا دریا بھی کیسا عجیب ہے — رستہ بدلتا رہتا ہے، مگر کبھی رکتا نہیں۔ اسی سوچ میں اچانک مجھے شالاط کا خیال آ گیا۔شالاط کون تھی؟کیا واقعی اُس کا یہی نام تھا، یا پھر شارلوٹے وقت اور زبان کے سفر میں ڈھل کر شالاط بن گئی تھی؟شالاط جو اسی شہرِ میونخ کی رہائشی تھی، کیا وہ کبھی ان گلیوں سے گزری ہوگی؟دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کو شکست ہو چکی تھی۔ شالاط اسی شکست خوردہ قوم کی بیٹی تھی۔ اسکی بےقراری اُسے ملکوں ملکوں لیے پھر رہی تھی۔ اُسی سفر کے دوران اس کی ملاقات مجید امجد سے ستمبر 1958 میں ہڑپہ میں ہوئی۔ کاتبِ تقدیر نے ان دونوں کے نصیب میں صرف عارضی سی ملاقات ہی لکھی تھی۔مجید امجد کی زندگی دکھوں اور محرومیوں کی کہانی تھی۔ وہ ساہیوال میں چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے۔ ذاتی زندگی اور دیگر ناکامیوں کی وجہ سے زندگی کی کڑواہٹ اُنہوں گھیرے ہوئی تھی لیکن وہ لمحۂ موجود میں جینا چاہتے تھے۔ اس جینے کا جتن اُنکی شاعری تھی۔پھر ایک روز مجید امجد کی اداس تنہا ٹھہرے پانیوں جیسی زندگی میں جیسے کہ کسی نے کنکر پھینک دیا ہو اور لہریں دائرہ در دائرہ پھیلنے لگیں۔ اس خوشگوار تبدیلی کی وجہ شالاط تھی۔مجید امجد سے شالاط کی ملاقات کا عرصہ اگرچہ مختصر تھا لیکن انکی زندگی اور انکی شاعری پر اُسکے اثرات دیر تک رہے۔ مجید امجد کی زندگی میں یہ عرصہ ایک سہانا خواب تھا۔مجید امجد شالاط کو خیرباد کہنےکیلئے اُس کے ہمراہ ایران کی سرحد تک گئے۔ شالاط کو رخصت کرنے کے بعد کوئٹہ سے ساہیوال تک کا سفر مجید امجد کیلئے یقیناً آسان نہیں تھا۔اپنے تصور کے حصار میں مجید امجد شالاط کی یاد میں میونخ کی کرسمس کا منظر کچھ یوں بیان کرتے ہیں۔’’فاصلوں کی کمند سے آزاد/میرا دل ہے کہ شہرِ میونخ ہے/چار سو، جس طرف کوئی دیکھے/برف گرتی ہے، ساز بجتے ہیں‘‘مرین پلاٹز پر نصب گھڑیوں کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا اور اپنے آپ کو دوبارہ بھیڑ کے بیچ پایا۔ میں سوچتا ہوں کہ شاید مجید امجد اور شالاط کی کہانی صرف ان دو انسانوں تک محدود نہیں۔ یہ کہانی دو ثقافتوں کو ملانے اور آنیوالے وقتوں میں ان دو قوموں کے رشتے کو ہم آہنگ اور پروان چڑھانے کی کہانی ہے۔

تازہ ترین