حوالات کے اس سیل میں ایک پندرہ سولہ سال کا لڑکا پہلے سے موجود تھا۔ اپنے انداز و اطوار سے کسی خوشحال گھرانے کا چشم و چراغ لگتا تھا۔ چہرے پر مگر شدید پریشانی کے آثار تھے۔ وہ کیا، اس کے گھر والے بھی کبھی وہم و گمان میں ایسے حالات سے دوچار نہیں ہوئے ہونگے۔ پولیس والے نے پندرہ سولہ سال کے دو اور نوجوان لڑکوں کو بھی حوالات میں دھکیل کر تالا لگا دیا۔ وہ دونوں نوجوان انتہائی پریشانی میں مبتلا تھے۔ ان میں سے ایک تو باقاعدہ آنسوؤں سے رو رہا تھا اور پولیس والے کو اپنے گھر والوں سے رابطہ کروانے کا کہہ رہا تھا۔ وہ کسی سرکاری اسکول کے یونیفارم میں ملبوس تھا، جبکہ دوسرے کا حال حلیہ بھی اس بات کی چغلی کر رہا تھا کہ اس کا تعلق بھی کسی امیر گھرانے سے نہ تھا۔ وہ سلاخوں سے لپٹے کچھ دیر کھڑے رہے، پھر دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ اب انہیں احساس ہوا کہ ان سے پہلے بھی حوالات میں ایک قیدی موجود تھا اور وہ بھی ان کا ہم عمر۔ ایک طویل خاموشی کے بعد ان تینوں نے ایک دوسرے سے بات چیت شروع کر دی۔ شہر میں ٹریفک کے معاملات میں حکومت نے سختی شروع کر رکھی تھی اور بعد میں آنے والے دونوں نوجوان اسی کا شکار ہوئے تھے۔ ایک بغیر ہیلمٹ اور دوسرا بغیر لائسنس موٹر سائیکل چلاتا پکڑا گیا تھا۔ ان دونوں نے پہلے سے موجود لڑکے سے پوچھا کہ کیا وہ بھی کسی ٹریفک کے معاملے میں ہی پکڑا گیا ہے۔ اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ ہیلمٹ نہیں پہنا تھا یا لائسنس نہیں تھا، دونوں لڑکے اس سے پوچھنے لگے۔ پہلا لڑکا کچھ دیر تو خاموش رہا پھر جھجکتے ہوئے کہنے لگا، ’’میری گاڑی کی موٹرسائیکل سوار دو لڑکوں سے ٹکر ہو گئی تھی، وہ دونوں موقع پر ہی مر گئے، پولیس والے مجھے پکڑ کر حوالات لے آئے، قتل کا الزام ہے‘‘۔ حوالات کے اس سیل میں پھر سے ایک سکوت طاری ہو گیا۔ تینوں نوجوانوں نے رات آنکھوں میں کاٹی۔ اگلے روز انہیں مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کر دیا گیا۔
’’سر یہ لڑکا بغیر ہیلمٹ کے موٹر سائیکل چلا رہا تھا، حکومت نے ایسے معاملات کیخلاف مہم چلا رکھی ہے، اس رجحان کی حوصلہ شکنی کیلئے لازم ہے کہ خلاف ورزی کرنے والوں کو بھرپور سزا دی جائے، ویسے بھی ہم نے تین ماہ سے آگاہی مہم چلا رکھی تھی لیکن جب تک ڈنڈے کا استعمال نہ کریں، عوام سمجھتے ہی نہیں،‘‘پراسیکیوٹر نے اپنا موقف بیان کیا۔ مجسٹریٹ نے لڑکے اور اپنے سامنے دھرے ہوئے کاغذات پر ایک سرسری سی نگاہ ڈالی اور لڑکے کو ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کرنے کا حکم صادر کر دیا۔’’سر یہ لڑکا بغیر لائسنس کے انتہائی تیز رفتاری سے موٹر سائیکل چلا رہا تھا اور سڑک عبور کرتے ہوئے ایک شخص کے ساتھ ٹکرا گیا تھا جس سے اس کا بازو ٹوٹ گیا، اس کی ضمانت منظور نہیں کی جانی چاہیے،‘‘پراسیکیوٹر نے دوسرے لڑکے کا کیس پیش کیا۔ اس سے پہلے کہ مجسٹریٹ کوئی فیصلہ سناتا، کمرہ عدالت میں موجود اس بچے کا باپ گڑگڑانے لگا کہ اس بچے کو معاف کر دیا جائے، آئندہ وہ ایسی بےپروائی کا مرتکب نہیں ہوگا۔ اس کا باپ یہ بھی کہنے لگا کہ جس شخص کابازو ٹوٹا تھا، وہ اسے بھی عدالت لے کر آیا ہے اور مجسٹریٹ کے سامنے وہ یہ بیان دینے کو تیار ہے کہ اس نے بچے کو معاف کر دیا ہے۔ ساتھ کھڑا شخص، جس کے ایک بازو پر پلاسٹر چڑھا ہوا تھا، اثبات میں سر ہلانے لگا۔ ماحول بدلتا دیکھ کر پراسیکیوٹر دوبارہ کھڑا ہو گیا۔ ’’مجسٹریٹ صاحب، بات صرف اس شخص کے معاف کرنے کی نہیں ہے، ریاست کا ایک قانون ہے، خلاف ورزی تو اسکی ہوئی ہے، ریاست اس معاملے میں مدعی ہے اور مقدمے کی آخر تک بھرپور پیروی کرے گی، اگر معافی تسلیم کر لی گئی تو ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوگی، یہ سڑکوں پر دندناتے، دوسروں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتے پھریں گے، ویسے بھی اسے معاف کر کے ہم نے قانونی نظام کا مذاق تو نہیں بنانا،‘‘ مجسٹریٹ نے ایک سخت سی نظر اس لڑکے پر ڈالی اور ضمانت کی درخواست مسترد کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔ ’’کریمنل ریکارڈ بننے سے میرا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا‘‘لڑکا خود بھی گڑگڑایا۔ یہ تم نے موٹر سائیکل چلانے سے پہلے سوچنا تھا ناں، مجسٹریٹ صاحب درشتی سے بولے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہنے لگے کہ سزا تو تمہارے والدین کو ملنی چاہیے جو ایسی باتوں میں تمہیں روکتے نہیں رہے اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے۔ مجسٹریٹ نے اس کی درخواست ضمانت مسترد کردی۔
تیسرا لڑکا پیش کیا گیا۔ پراسیکیوٹر اور عدالت کے انداز و اطوار ہی بدل گئے۔ مجسٹریٹ صاحب بھی سنبھل کر بیٹھ گئے۔ کہا گیا کہ لڑکا کم عمر تھا، بغیر لائسنس کے تیز رفتاری سے گاڑی چلا رہا تھا، ساتھ میں ٹک ٹاک بھی بنا رہا تھا، ایک موٹر سائیکل سے ٹکرا گیا جس سے اس پر سوار دونوں لڑکوں کی موت واقع ہو گئی ۔ سب نظریں مجسٹریٹ پر مرکوز ہو گئیں۔ پراسیکیوٹر نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا، ’’دونوں بچوں کے وارثان نے البتہ لڑکے کو معاف کر دیا ہے اور بیان حلفی جمع کروا دیے ہیں‘‘۔ پراسیکیوٹر نے کچھ کاغذات مجسٹریٹ صاحب کے سامنے رکھ دیے۔ دونوں میں کچھ دیر کھسر پھسر ہوتی رہی۔ مجسٹریٹ صاحب نے اعلان کیا کہ چونکہ وارثان نے لڑکے کو معاف کر دیا ہے، اس کیخلاف مزید کارروائی کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا، سو اسے رہا کیا جاتا ہے۔ فیصلہ سنتے ہی ملزم لڑکے کے چہرے پر خوشی پھیل گئی۔ وہ عدالت میں موجود اپنے عزیز و اقارب سے لپٹ گیا اور انکے ہمراہ کمرہ عدالت سے روانہ ہو گیا۔ ہیلمٹ نہ پہننے والے نوجوان کو البتہ پولیس نے ہتھکڑی لگائی اور اپنی گاڑی کی طرف دھکیل دیا۔ اچھا ہوا، آخر ایسے لڑکے پورے معاشرے کے لیے خرابی کا باعث بنتے ہیں!