پچھلی چند دہائیوں میں محض جس ایک ایجاد نے دنیا بھر میں مرد و زن اور بچوں بوڑھوںسب کی زندگی کا رنگ ڈھنگ بالکل بدل کر رکھ دیا ہے، اس کا نام سوشل میڈیا ہے۔ساٹھ ستر سال کے بزرگوں اوراٹھارہ بیس سال کے جوانوں سے لے کر تین چار سال تک کے بچوں تک سبھی اس قتالہ عالم کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہیں۔ انٹرنیٹ سے منسلک موبائل فون پر باہمی رابطوں کی سہولتوں اور نوع بنوع دلچسپیوں کی دستیابی اور ان میں مسلسل اضافوں کی وجہ سے دنیا بھر میں بے شمار لوگ دن رات کے چوبیس گھنٹوں کے ایک بڑے حصے میں اسی جام جہاں نما سے دل لگاتے دکھائی دیتے ہیں ۔ موبائل فون کی ٹچ اسکرین نے آج کرہ ارض پر بسنے والے ہر شخص کو ان درجنوں آلات سے بے نیاز کردیا ہے جن کے بغیر کچھ ہی عرصہ پہلے تک باہمی ربط ضبط ، پڑھنا لکھنا اور دنیا کے حالات سے باخبر رہنا ممکن نہ تھا۔ سرخ رنگ کے پوسٹ باکس جو پندرہ بیس سال پہلے تک گلی محلوں میں نصب ہوتے تھے اب ناپید ہوچکے ہیں۔ ریڈیو، ٹی وی،اخبار، کتاب، لائبریری ،کیمرے، گھڑی، ٹیپ ریکارڈر، کیلکولیٹر، سنیما گھر،سب کی ضرورت ایک موبائل فون، ٹیب یا لیپ ٹاپ پوری کررہا ہے۔ دفتر کا کام دنیا کے کسی بھی حصے سے کرنے، آن لائن کاروبار کے ذریعے گھر بیٹھے روزی کمانے، اسکول کالج جائے بغیر تعلیم حاصل کرنے جیسی حیرت انگیز سہولتیں اسی سوشل میڈیا نے اس دور کے انسان کو فراہم کررکھی ہیں۔
تاہم بہت سے حوالوں سے نہایت مفید اور کار آمد ہونے کے باوجود سو شل میڈیا بہت سے لوگوں کیلئے ایک نشہ اور لت بن گیا ہے جسکے منفی نتائج تیزی سے سامنے آرہے ہیں ۔ خصوصاً بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی اور جسمانی صحت پر اس کے بڑے نقصان دہ اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ ہم جیسے ممالک تو مغرب کے نقال اور لکیر کے فقیر ہیں لیکن جن ترقی یافتہ قوموں نے یہ ایجاد متعارف کرائی ہے، اس کے مضر اثرات کے حوالے سے ان میں بڑی فکر مندی پائی جاتی ہے اور اس بارے میں مسلسل تحقیق کی جارہی ہے کہ ان منفی اثرات سے نئی نسل کو کیسے بچایا جائے۔ کئی مغربی جامعات میں اس موضوع پر ریسرچ ہوئی ہے اور ہورہی ہے۔ دو سال پہلے اس بارے میںامریکی سرجن جنرل کی ہدایات و سفارشات شائع ہوچکی ہیں۔ میڈیکل سائنس کے معروف جرنلوںمیں اس موضوع پر قیمتی مقالات لکھے گئے ہیں اور یہ سلسلہ برابر جاری ہے۔
اس حوالے سے چند روز پہلے ہی رونما ہونے والا ایک اہم واقعہ سولہ سال سے کم عمر بچوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر پابندی لگانے والے پہلے ملک کی حیثیت سے آسٹریلیا کا سامنے آنا ہے۔ ٹک ٹاک، گوگل، یوٹیوب، انسٹاگرام اور فیس بک سمیت دس بڑے پلیٹ فارموں تک بچوں کی رسائی کو بدھ دس دسمبر کی آدھی رات سے بلاک کرنے کاپارلیمنٹ سے سال بھر پہلے منظور ہونے والا قانون پورے ملک میں نافذ کردیا گیا ہے جسکی خلاف ورزی کرنے والے پلیٹ فارموں پر 33 ملین ڈالرتک کے جرمانے کا حکم دیا گیا ہے۔ آسٹریلوی حکومت کے اس فیصلے پر بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں نے اگرچہ نکتہ چینی کی ہے لیکن والدین اور بچوں کے معاملات کے ماہرین نے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق یہ قانون نابالغوں کو ٹک ٹاک، فیس بک، یو ٹیوب اور انسٹاگرام جیسے پلیٹ فارمز پر اکاؤنٹس بنانے سے روکتا ہے ۔واٹس ایپ، ای میل سروسز، آن لائن گیمز اور تعلیمی ٹولز کو اس پابندی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔قانون نافذ ہوتے ہی لاکھوں کم عمر صارفین خودکار طور پر اپنے اکاؤنٹس سے لاگ آؤٹ ہو گئے۔ وقت ختم ہونے سے پہلے کچھ بچوں نے اپنے آن لائن ناظرین کو الوداع کہتے ہوئے’’ اب آپ سے اس وقت ملاقات ہوگی جب ہم سولہ سال کے ہوجائیں گے‘‘ جیسے ہیش ٹیگز استعمال کیے۔
وزیرِاعظم انتھونی البانیز نے اس اقدام کو سراہتے ہوئے جو کچھ کہا وہ مغرب کی ہر بات کی نقالی ہی کو ترقی کا راستہ سمجھنے والوں کے لیے بہت سبق آموز ہے۔ ان کا کہنا تھا’’یہ واقعی آسٹریلوی ہونے پر فخر کا دن ہے، یہ اصلاحات ہمارے ملک کو درپیش سب سے بڑی سماجی اور ثقافتی تبدیلیوں میں سے ایک ہیں۔ اس قانون کا مقصد نوجوانوں کے لیے آن لائن تحفظ کو بہتر بنانا ہے۔‘‘ بچوں کے نام ایک ویڈیو پیغام میں وزیر اعظم انتھونی البانیز نے کہا ہے کہ پابندی کا مقصد نوعمر آسٹریلوی باشندوں کی مدد کرنا اور اس دباؤ کو کم کرنا ہے جو لامتناہی فیڈز اور الگورتھم سے آسکتا ہے۔ اب آپ اسکول کی آنے والی چھٹیوں کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔ انہیں اپنے فون پر اسکرول کرنے میں گزارنے کے بجائے کوئی نیا کھیل شروع کریں، کوئی نیا ہنر سیکھیںیا وہ کتاب پڑھیں جو آپ کے شیلف میں کچھ عرصے سے پڑی ہوئی ہے‘‘۔
بچوں کی ذہنی، جسمانی اور اخلاقی صحت پر سوشل میڈیا کے اثرات کے حوالے سے بڑھتے ہوئے خدشات کے پیش نظر عمر کی بنیاد پر اسی طرح کے اقدامات پر غور کرنے والے دیگر ممالک کی طرف سے اس پابندی کا سنجیدگی اور دلچسپی سے جائزہ لیا جارہا ہے ۔ پاکستان میں بھی بچوں اور جوانوں کی سوشل میڈیا کے ہر قسم کے پلیٹ فارموں پر بے پناہ اور غیرضروری مصروفیت نے ان کے لیے سنگین مسائل پیدا کردیے ہیں۔ گھر کے باہرکھیلوں کا رواج کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔ چند سال کے بچوں کا بھی بڑا وقت اسکرین پر نظریں جمائے گزرتا ہے جس کے نہایت مضر اثرات بینائی پر مرتب ہورہے ہیں۔ اس مشغولیت کا ایک بہت نمایاں نتیجہ دیگر ملکوں کی طرح ہمارے ہاں بھی بچوں کی غائب دماغی اور ذہنی الجھنوں کی شکل میں سامنے آرہا ہے جبکہ جسمانی کھیل کود سے عدم دلچسپی ان کی جسمانی صحت کو بری طرح متاثر کررہی ہے۔ لہٰذا مناسب ہوگا کہ حکومت پاکستان بھی آسٹریلیا کے اقدامات کا سنجیدگی سے جائزہ لے کر پاکستانی بچوں اور جوانوں کو سوشل میڈیا کے مضر اثرات سے بچانے کے لیے موثر اقدامات عمل میں لائے۔