فرانس کے سابق صدر نکولس سرکوزی کا واقعہ تاریخ کے ان دلچسپ اور تلخ ابواب میں شامل ہے جو اقتدار اور قید کے فرق کو بے نقاب کر دیتا ہے۔ سرکوزی کو عدالتی فیصلے کے تحت جیل جانا پڑا، جہاں انہوں نے بیس دن قیدِ تنہائی میں گزارے۔ رہائی کے بعد انہوں نے ایک کتاب تحریر کی جس میں لکھا کہ’’ اقتدار کے بعد قید ِتنہائی جہنم سے کم نہیں‘‘۔حالانکہ انہیں جیل میں دیگر قیدیوں کی نسبت بہتر سہولتیں میسر تھیں۔ صرف سکیورٹی خدشات کے باعث انہیں الگ رکھا گیا تھا اور دو محافظ ہمہ وقت انکی حفاظت پر مامور تھے۔نکولس سرکوزی کو بطور وزیرِ داخلہ قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، پھر وہ فرانس کے صدر منتخب ہوئے۔ انکے تجربات نے یہ سکھایا کہ اقتدار عارضی ہے مگر کردار مستقل امتحان میں رہتا ہے۔ یہی اصول اگر پاکستان کی سیاست پر منطبق کیا جائے تو کئی چہرے نظروں کے سامنے آتے ہیں،کچھ وہ جنہیں اقتدار نے بدل دیا، اور کچھ وہ جو اقتدار میں آ کر بھی نہ بدلے۔ انہی میں ایک نام میاں نواز شریف کا ہے۔پاکستان کی سیاست میں مجھے بہت سے کرداروں کو قریب سے دیکھنے، پرکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ اقتدار کے ایوانوں میں رہنے والوں کے مزاج، رویے اور ترجیحات بھی دیکھیں۔ مگر ان سب میں ایک لیڈر ایسا بھی رہا جو ہمیشہ بلا خوف، بلا مصلحت اور اصولوں کی بنیاد پر بات کرتا رہا۔ یہ الگ بات ہے کہ جب بھی وہ اقتدار میں آیا، اس نے ملکی معیشت، ترقی اور استحکام کے راستے روشن کیے،مگرخودالزامات،سازشوں اور آزمائشوں سے نہ بچ سکا۔مجھے آج بھی یاد ہے،سن 1992 کا ایک دن۔ ایک بڑا ترقیاتی منصوبہ زیرِ تعمیر تھا جسکے معائنے کیلئے وہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے پہنچے۔ جیسے ہی وہ اترے، بغیر کسی رسمی پروٹوکول کے تیز قدموں سے منصوبے کی طرف بڑھ گئے۔ ہم صحافی بھی انکے ساتھ چلنے لگے۔ اسی بھاگ دوڑ میں میرا پاؤں اچانک ان کی ایڑی سے ٹکرا گیا۔ دل ایک لمحے کو دھک سے رہ گیا کہ جانے ردِعمل کیا ہوگا۔ مگر وہ، جو اس وقت ملک کے وزیرِ اعظم تھے، ناراض ہونے کے بجائے مسکرا کر بولے:’’آج آپ بڑی فارم میں ہیں!‘‘یہ جملہ صرف مزاح نہیں تھا بلکہ ان کی طبیعت کی شائستگی، حوصلے اور انسان دوستی کا عکاس تھا۔
اقتدار کا سورج ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔ جیسے ہی حالات بدلے، صعوبتوں کی ایک طویل رات نواز شریف کی منتظر تھی۔ اٹک قلعہ کی تنگ و تاریک کوٹھڑی، جہاں تاریخ کے کئی ورق لہو رنگ ہوئے، وہاں انکے ساتھ جو سلوک ہوا، شاید الفاظ اسکی پوری تصویر کشی نہ کر سکیں۔ کوٹھڑی میں سانپ اور بچھو چھوڑنے جیسے واقعات، پولیس گاڑی میں لیور پر بٹھا کر راولپنڈی لے جانا، اور پھر جہاز کے ذریعے کراچی منتقلی،واپسی پر ان کا جسم پسینے میں شرابور ہوتا۔ ایک موقع پر ایک پولیس افسر نے انہیں پانی کی بوتل پیش کی۔ انہوں نے خاموشی سے اپنی قمیص کے پہلو میں رکھی چھوٹی سی بوتل نکالی اور کہا’’میرے پاس پانی موجود ہے۔‘‘یہ محض انکار نہیں تھا، بلکہ خودداری، صبر اور وقار کی ایک خاموش مگر مضبوط علامت تھی۔پاکستان میں ایسے لیڈر کم ہی پیدا ہوتے ہیں جو اقتدار میں ہوں تو خدمت کو عبادت سمجھیں، اور جب آزمائش آئے تو صبر کو اپناشعاربنا لیں۔ میاں نواز شریف کے ساتھ یہ سب کچھ تین مرتبہ ہوا۔ انکی دیانتداری پر سوال اٹھائے گئے، منظم منصوبہ بندی کے تحت الزامات لگے، انہیں اقتدار سے الگ کیا گیامگر عوام کے دلوں میں انکی محبت ختم نہ ہو سکی۔ وہ آج بھی ایک باصلاحیت، تجربہ کار اور قدآور سیاسی رہنما کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔عروج و زوال کے ان ادوار میں انہوںنے اپنی بیٹی کی صلاحیتوں کو پہچانا اور سیاسی و انتظامی تربیت کی۔ آج وہی بیٹی، وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز، صوبے کو ایک نئے وژن کے ساتھ آگے بڑھا رہی ہے۔ پنجاب میں صحت کارڈ کا مؤثر نفاذ، سرکاری اسپتالوں کی اپ گریڈیشن، اسکول آف ایمیننس، خواتین کیلئے معاشی خودمختاری کے پروگرام، صاف ستھرا پنجاب مہم، جدید ٹیکنالوجی پر مبنی گورننس، اور نوجوانوں کیلئے روزگار و اسکل ڈویلپمنٹ کے منصوبے،یہ سب اس سوچ کا تسلسل ہیں جو ترقی کو محض نعرہ نہیں بلکہ حقیقت بناتی ہے۔ عالمی سطح پر بھی انکے اقدامات کو سراہا جا رہا ہے، اور کئی یورپی رہنما ان کی ترقی پسند سوچ سے متاثر نظر آتے ہیں۔میاں نواز شریف کے سیاسی ہمسفر بھی کم آزمائشوں سے نہیں گزرے۔ خواجہ سعد رفیق، پرویز رشید، رانا ثناء اللّٰہ اور دیگر رہنماؤں نے قید و بند، تشدد اور انتقام کا سامنا کیا۔وزیراعظم شہباز شریف آج نواز شریف کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ملک کو معاشی بحالی اور استحکام کی طرف لے جانے میں مصروف ہیں۔ انکی سب سے بڑی خوش قسمتی یہ ہے کہ انہیںجنرل سید عاصم منیرجیسے ایک ایسا سپہ سالار میسر آئے جونہ صرف عسکری مہارت میں ممتاز ہیں بلکہ سفارت کاری، حکمتِ عملی اور عالمی سطح پر پاکستان کے وقار میں اضافے کے حوالے سے بھی ایک مضبوط شناخت رکھتے ہیں۔ مئی میں معرکۂ حق کے دوران انکی قیادت نے ثابت کیا کہ پاکستان کا دفاع محفوظ ہاتھوں میں ہے، اور قوم متحد ہو تو کوئی طاقت اسے جھکا نہیں سکتی۔یوں میاں نواز شریف کی سیاسی داستان صرف اقتدار کی کہانی نہیں، بلکہ اصول، صبر، قربانی اور تسلسل کی وہ داستان ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے ایک سبق بھی ہے اور امید بھی۔ یہاں ایک وہ حقیقت بھی لکھتا جاؤں کہ ان تمام ادوار میں بعض بیوروکریٹ وہ دیکھے جو ان سے شفقت حاصل کرنے کے باوجود انکو ڈستے رہے آج بھی پنجاب میں بعض ایسے افسران موجود ہیں جو رابطے کہیں اور رکھتے اور مراعات ان سے وصول کرتے ہیں اور انکی کرپشن کے قصےزبان زدِعام ہیں اور وہ پنجاب کے کئی ترقیاتی، رفاہی منصوبوں کیلئے بڑی رکاوٹ ہیں اور حکومت کی بدنامی کا باعث بھی بن رہے ہیں۔