وہ رات واقعی اندھیری تھی۔ عمران خان کی حکومت تازہ تازہ ختم ہوئی تھی اور ملک ایک ایسے موڑ پر کھڑا تھا جہاں آگے دھند تھی، پیچھے انتشار۔ شہر سویا ہوا تھا مگر ریاست بے چین تھی۔ ٹی وی اسکرینوں پر سرخ اعداد دوڑ رہے تھے، ڈالر کی اڑان، زرمبادلہ کے خالی ہوتے ذخائر، بند ہوتی صنعتیں، اور ہر بحث کے مرکز میں وہ ایک لفظ ڈیفالٹ۔ یہ محض معاشی اصطلاح نہیں تھی، یہ ریاست کے وجود پر منڈلاتا سوال تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب حالات واقعی ہاتھ سے نکلتے محسوس ہو رہے تھے۔اسی اندھیری رات میں شہباز شریف نے پہلے مختصر مگر فیصلہ کن مدت کی حکومت میں، ایک بوجھ اٹھایا۔ یہ اقتدار کی خوشی نہیں تھی، یہ ملبے کے نیچے دبی ریاست کو نکالنے کی کوشش تھی۔ ایسے وقت میں سیاست سہل نہیں ہوتی، نعرے بوجھ بن جاتے ہیں اور مقبولیت بیکار ہو جاتی ہے۔ یہاں صرف فیصلہ درکار ہوتا ہے، اور وہ بھی سخت۔
آئی ایم ایف کا معاہدہ کسی فتح کی تصویر نہیں تھا۔ یہ ایک تلخ حقیقت تھی جس سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ سیاسی نقصان کے خطرے کے باوجود یہ فیصلہ کیا گیا، کیونکہ ریاست کو سانس لینےکیلئے مہلت درکار تھی۔ اسی فیصلے نے ڈیفالٹ کے سائے کو پیچھے دھکیلا۔ معیشت نے ہچکچاتے ہوئے سانس لیا۔ روپے کی بے لگام گراوٹ رکی۔ زرمبادلہ کے ذخائر نے آہستہ آہستہ حرکت دکھائی۔ یہ کامیابی نہیں تھی، مگر سقوط سے واپسی ضرور تھی۔
مہنگائی، جو طوفان بن کر گھروں میں داخل ہو چکی تھی، یکدم ختم نہیں ہوئی، اس کی رفتار کم ہوئی۔ مصنوعی قلتیں ٹوٹیں۔ ریاست نے بازار کو یہ پیغام دیا کہ اب تماشائی نہیں، نگران موجود ہے۔ فائلوں میں قید حکومت میدان میں آئی۔ کابینہ متحرک ہوئی، ادارے جاگےاور فیصلے میزوں سے نکل کر عمل میں ڈھلنے لگے۔ گورننس دوبارہ ایک اصطلاح نہیں بلکہ ایک کیفیت بنتی دکھائی دی۔
توانائی کا شعبہ، جو برسوں سے ریاست کیلئے دردِ سربنا ہوا تھا، وہاں بھی اصلاحات کا آغاز ہوا۔ گردشی قرضے کے پھیلاؤ کو روکنے، نقصانات کم کرنے اور نظام کو پائیدار بنانےکیلئے اقدامات کیے گئے۔ یہ فیصلے بھی عوامی داد کے محتاج نہیں تھے، مگر ریاستی بقا کیلئے ناگزیر تھے۔ کیونکہ بغیر توانائی نہ صنعت چلتی ہے، نہ روزگار، نہ معیشت۔اسی دوران عالمی منظرنامہ بھی بدلنے لگا۔ پاکستان، جو کچھ عرصہ پہلے ایک غیر یقینی ریاست کے طور پر دیکھا جا رہا تھا، دوبارہ سنجیدہ گفتگو کا حصہ بننے لگا۔ دوست ممالک سے رابطے بحال ہوئے، عالمی اداروں میں اعتماد کی واپسی ہوئی، اور سفارتی سطح پر پاکستان کا نام پھر سے وزن کے ساتھ لیا جانے لگا۔ یہ اعتماد کسی ایک تقریر سے نہیں آیا، یہ مسلسل فیصلوں کا نتیجہ تھا۔
اس پورے سفر میں ایک پہلو غیر معمولی رہا عوامی بیانیہ۔ عطا اللّٰہ تارڑ نے حکومتی ترجمان کے طور پر خواب نہیں بیچے، بلکہ حقیقت بتائی۔ مشکلات کو چھپایا نہیں گیا، کامیابیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیا گیا۔ عوام کو بتایا گیا کہ سفر مشکل ہے مگر سمت درست ہے۔ یہی سچائی اعتماد کو جنم دیتی ہے، اور یہی اعتماد کسی بھی ریاست کی اصل طاقت ہوتا ہے۔
پھر وہ مرحلہ آیا جہاں استحکام صرف معیشت تک محدود نہ رہا بلکہ دفاعی سوچ میں بھی جھلکنے لگا۔ پاک فوج کی شاندار کامیابیوں کے بعد آرمی چیف کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دینا محض ایک رسمی اعزاز نہیں تھا، بلکہ تسلسل، اعتماد اور ادارہ جاتی استحکام کا اظہار تھا۔ اسی تسلسل میں چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ متعارف کرانا ایک دور اندیش فیصلہ ثابت ہوا۔ جدید ریاستیں اسی طرح دفاعی فیصلہ سازی کو مربوط، تیز اور مؤثر بناتی ہیں۔ دفاع میں استحکام، دراصل معیشت میں استحکام کی ضمانت بنتا ہے۔ اس سمت میں شہباز شریف بلاشبہ مبارک باد کے مستحق ہیں، اور اس قومی فیصلے پر رائے عامہ کو ہموار کرنے میں عطا اللّٰہ تارڑ کا کردار بھی قابلِ تحسین رہا۔
اس کہانی کا ایک باب ایسا ہے جسے نظرانداز کرنا خود فریبی ہوگی۔ یہ وہ باب ہے جو پچھلی حکومت کے دور میں کھلا۔ جھوٹے الزامات، سیاسی انتقام، کردار کشی، اور لوگوں کو بغیر ٹھوس شواہد جیلوں میں ڈالنے کا عمل۔ صحافی ہوں یا سیاستدان، سرکاری افسر ہوں یا ریاستی اداروں سے وابستہ افراد، اس دور میں الزامات کو ہتھیار بنایا گیا۔ اگر آج ہم واقعی استحکام چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ سابقہ حکومت کے دور میں لگائے گئے جھوٹے الزامات کا غیر جانبدار، قانونی اور شفاف احتساب کیا جائے، اور جنہوں نے ریاست کو اس دلدل میں دھکیلا، انہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔
بحران سے استحکام تک کا یہ سفر ابھی مکمل نہیں ہوا۔ مگر یہ پہلا موقع ہے کہ اندھیری رات کے بعد سمت دکھائی دے رہی ہے۔ یہ کسی ایک فرد یا جماعت کی نہیں، ایک ریاست کے سنبھلنے کی کہانی ہے۔ اس وقت ملک میں موجود سیاسی، معاشی اور دفاعی استحکام آنیوالے دنوں میں پاکستان کو ترقی پذیر ممالک کی صف سے نکال کر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرا سکتا ہے، لہٰذا بہتر مستقبل کیلئے پوری قوم کی نظریں ریاست کے ذمہ داروں پر مرکوز ہیں۔