• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

گزشتہ ہفتے ہم لارنس گارڈن کے حوالے سے بات کر رہے تھے یقین کریں لارنس گارڈن میں سیر کرنے کا جو لطف آتا ہے وہ لاہور کے کسی باغ اور جاگنگ ٹریک میں سیر اور واک کرنےمیں نہیں آتا۔ ہم جب گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم تھےتو تقریباً چار سال تک بڑی باقاعدگی کے ساتھ شام کو لارنس گارڈن سیر کرنے یا واک کرنےجایا کرتے تھے رات کو ہم صرف جگنو دیکھنے کے لیے لازمی جاتےتھے ۔کیا خوبصورت منظر ہوتا تھا اسکول کے زمانے میں جب ہمارے چچا برجیس ناگی جمخانہ کلب کے ممبر تھے تو ہم انکے اور اپنی کزن نیسا ناگی کے ساتھ اکثر جمخانہ کلب جایا کرتے تھے۔تب جمخانہ کلب لارنس اور منٹگمری ہال میں تھا ،جسے آج آپ قائد اعظم لائبریری کہتے ہیں یہاں پر گوروں کے دور کا جمخانہ کلب تھا اسی کلب کے لکڑی کے فرش پر ہر ہفتے کی رات ڈانس ہوا کرتا تھا اور فلمیں بھی دکھائی جاتی تھیں۔ کیا خوبصورت ماحول ہوتا تھا بڑے کم ممبرز تھے اور گوروں کی بھرپور عکاسی اس کلب میں دیکھنے کو ملتی تھی۔آج کا جم خانہ کلب تو شادی گھر بن چکا ہے جہاں پر صرف کھانے پینے کیلئے ہر وقت لوگ بیٹھے رہتے ہیں یا پھر چند بوڑھے بیوروکریٹس جو اپنے دور کے نام نہاد خدمت اور بہادری کے واقعات تاش کھیلنے کے دوران بتاتے رہتے ہیں۔ لارنس گارڈن کی ایک پہاڑی پر لکڑی کا پل تھا جس کے نیچے آبشار ہوا کرتی تھی ہم کئی مرتبہ اس پل پر گئے تھے، سننے میں آیا تھا کہ یہ پل ٹوٹ گیا تھا اور کچھ بچے زخمی ہو گئے تھے۔ لارنس گارڈن کی بنیاد 1862 میں گوروں نے رکھی تھی سرجان لارنس اس وقت پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر تھے چنانچہ ان کے نام پر اس باغ کا نام رکھا گیا جو پہلے176 ایکڑ پر مشتمل تھا اب 155 ایکڑ پر ہے یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ لاہور جیسے شہر میں جہاں قبضہ مافیہ اور تجاوزات کا ہمیشہ زور رہا ہے وہاں پر گورنر ہاؤس کے بالکل سامنے 155 ایکڑ پر مشتمل یہ تاریخی باغ آج بھی اپنی اصل شکل و صورت میں موجودہے۔ہم ڈی ایچ اے میں رہتے ہیں وہاں پر ڈی ایچ اے نے کئی خوبصورت پارک اور جوگنگ ٹریک بنا رکھے ہیں لیکن واک کا جو مزہ لارنس گارڈن میں آتا ہے وہ کسی اور جگہ نہیں آتا۔ اس تاریخی باغ میں کئی درخت 2 سو برس کےقریب قدیم ہیں ۔قارئین کیلئے یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ رابرٹس کلب جہاں پر پہلے سی آئی ڈی کا دفتر تھا اب اسپیشل برانچ کا ہے وہاں پر 1791کا ایک قدیم درخت موجود ہے ہمارے خیال میں یہ لاہور کا قدیم ترین درخت ہے ۔حال ہی میں میاں میر چھاؤنی لاہور کینٹ میں صرف پارکنگ کے لیے 150 سالہ قدیم درخت کاٹ دیا گیا جو بڑے افسوس کی بات ہے۔ لاہور میں انگریزوں نے جو تعلیمی ادارے تعمیر کیے تھے ان سب میں ایک سو سے دو سو برس قدیم درخت آج بھی موجود ہیں اسی طرح میو گارڈن میں بے شمار قدیم درخت ہیں آئندہ کسی کالم میں آپ کو اس حوالے سے بتائیں گے ۔کچھ درختوں پر جنات بھی بسیرا کیے ہوئے ہیں ۔پنجاب اسپیشل پریمنس تحفظ آرڈیننس کے تحت اسے ایک تاریخی ورثہ محفوظ تاریخی مقام بھی قرار دیا گیا ہوا ہے اس باغ کو گوروں کی پنجاب ایگری ہارٹی کلچرل سوسائٹی نے لندن کے کیو گارڈنز سے متاثر ہو کر تعمیر کیا تھا ۔1860میں اس کی تعمیر کا آغاز ہوا تھا اور 1862 میں یہ باغ مکمل ہوا تھا جس میں چار مخصوص پہاڑیاں بھی ہیں۔ان سب میں سے 11 ایکڑ گورنمنٹ کالج بوٹنیکل گارڈن کو اور کچھ رقبہ چڑیا گھر والے اس میں سے لے گئے۔ ہمیں یاد ہے کہ ایک زمانے میں ایک راستہ چڑیا گھر سے لارنس گارڈن پیدل جانے والوں کیلئے ہوا کرتا تھا ہم کئی مرتبہ اس راستے سے کبھی چڑیا گھر تو کبھی لارنس گارڈن بھی گئے ، اب پتہ نہیں وہ راستہ اوپن ہے یا نہیں۔ لارنس گارڈن میں تین مزار ہیں حضرت سخی ترت مراد شاہ، ان کی ہمشیر ہ حضرت بی بی مراد فاطمہ اور تیسرا حضرت شرف الدین کا یہ تینوںمزارات تقریباً نو سو برس قدیم ہیں۔ لارنس گارڈن محض سیر گاہ یا تفریح کے لیے نہیں بنایا گیا تھا بلکہ اسے بوٹینیکل گارڈن کے طور پر بنایا گیا تھا انگریزوں کا اس باغ کو تعمیر کرنے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ انگلستان کے اعلیٰ افسر اور مقامی لوگ تفریح اور سیر کرنے کے ساتھ ساتھ نباتات کے بارے میں بھی معلومات حاصل کر سکیں۔ بعض حوالوں سے یہاں پر 80 ہزار کے قریب خاص مختلف اقسام کے درخت، پودے اور جھاڑ ہیں، بعض درخت تو بہت نایاب اور قیمتی ہیں۔ لارنس گارڈن میں گوروں نے ایک اوپن ایئر تھیٹر بھی 1940 میں تعمیر کرایا تھا یہ لاہور کا پہلا باقاعدہ اوپن ایئر تھیٹر تھا۔ انگریزوں کا یہ خیال تھا کہ لاہوریوں کیلئے کھلی فضا میں ایک ایسی جگہ بنائی جائے جہاں پر وہ بیٹھ کر ثقافتی تقریبات ،ڈراموں اور موسیقی کے پروگراموں سے لطف اندوز ہو سکیں ۔ حکومت بھی یہاں پر اپنی بعض سرکاری تقریبات منعقد کراتی تھی ہمیں یاد ہے کہ ایک زمانے تک لارنس گارڈن کا اوپن ایئر تھیٹر ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز رہا یہاں سینکڑوں ڈرامے بھی ہوئے کئی تعلیمی ادارے بھی یہاں پر اپنے پروگرامز منعقد کرایا کرتے تھے ۔پھر ایک دورآیاکہ یہ اوپن ایئر تھیٹر خستہ حالی کا شکار ہو گیا اب حکومت نے اسے دوبارہ بحال کیا ہے خصوصاً اسکے موجودہ ڈائریکٹر احمد مسعوداور لارنس گارڈن کے پروجیکٹ ڈائریکٹر جلیل احمد کی خصوصی کاوشوں سے اوپن ایئر تھیٹر کی رونقیں بحال ہو چکی ہیں یہ اوپن ایئرتھیٹر یورپی طرز کا ہے، اسی سے ملتا جلتا گورنمنٹ کالج لاہور کا اوپن ائیر تھیٹر اور کنئیرڈ کالج کا ایمفی تھیٹر(پیرن بوگا ایمفی تھیٹر)ہے ۔کنئیرڈ کالج کا اوپن ایئر تھیٹر زیادہ خوبصورت اور وسیع ہے۔ قارئین کیلئے یہ بات دلچسپی کا باعث ہوگی کہ لارنس گارڈن میں یورپ،آسٹریلیا ،بھارت اور برطانیہ سے لائے گئے کئی پودے اور درخت ہیں، کہا جاتا ہے کہ لارنس ہال میں شروع میںکوئین میری کالج بھی رہا ہے لاہور کا سب سے پہلا اور قدیم جمخانہ کلب گراؤنڈ بھی یہاں پر ہے اس جگہ جا کر آپ کو احساس ہوتا ہے جیسے آپ ولائیت کے کسی کرکٹ گراؤنڈ میں آگئے ہیں بڑا تاریخی گراؤنڈ ہے یہاںکئی نامور لوگ کرکٹ کھیلتے رہے ہیں۔لارنس گارڈن میں ایک کاسمو پولیٹن کلب بھی ہے جو 1927 میں قائم کیا گیا تھا جو آج بھی موجود ہے یہیں پر لاہور میں خواتین کا پہلا کلب لاہور لیڈیز کلب,1938 میں قائم کیا گیا تھا۔(جاری ہے)

تازہ ترین