عالمی فکری روایت میں جامعہ (University) اس دبستانِ حکمت کو کہتے ہیں جہاں فکرِ انسانی کے شجرِ کہن کو تازہ کونپلیں نصیب ہوتی ہیں اور جہاں کا وائس چانسلر کسی بادشاہ سلامت کے تختِ طاؤس پر نہیں بلکہ علمی درویشی کے اس مصلے پر متمکن ہوتا ہے جہاں ماتھے کے پسینے سے تحقیق کے چراغ روشن کیے جاتے ہیں۔ آکسفورڈ، ہارورڈ اور کیمبرج جیسی دانش گاہوں کے سربراہوں کی رفعتِ پرواز کا یہ عالم ہے کہ وہ خود کو انتظامی امور کا ’’چیف سرونٹ‘‘ اور علمی قافلے کا ’’حدی خواں‘‘ تصور کرتے ہیں، جن کی پہچان ان کے بنگلوں کی تزئین و آرائش نہیں بلکہ ان کے افکار کی تابانی ہوتی ہے اور جو پروٹوکول کے حصار میں نہیں بلکہ کتب خانوں کے کسی گوشے میں طالب علموں کے ہجوم میں گھرے نظر آتے ہیں۔
لیکن صد افسوس کہ جب ہم ان ضیا بار جامعات کے موازنے میں اپنے وطنِ عزیز کی سرکاری دانش گاہوں کو دیکھتے ہیں تو ایک ایسا دکھائی پڑتاہے جہاں علم کی جگہ علمیت جھاڑنےنے لے لی ہے اور تحقیق کی جگہ شخصی نمائش کی ہوس نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ ہماری جامعات اس وقت ایک ایسی سیاسی جاگیرداری کا نقشہ پیش کر رہی ہیں جہاں وائس چانسلرز کی صورت میں ایسی نمائشی اور کمزور شخصیتیں مسلط کی گئی ہیں جن کا علمی قد تو پٹوار خانے کے منشی سے بھی کم ہے، مگر ان کی شاہانہ جبلتیںکسی قرونِ وسطیٰ کے منصب دار کو بھی مات دیتی نظر آتی ہیں۔
یہ طرم خان منصب سنبھالتے ہی سب سے پہلے لائبریری کی کتابوں یا لیبارٹری کے آلات کے بجائے اپنے دفتر کے پردوں، قالینوں اور گھر کے فرنیچر کی تبدیلی پر نظریں گاڑلیتے ہیں۔ یہ وہ ذہنی بونےہیں جو سمجھتے ہیں کہ مہنگے اطالوی ماربل اور شاہانہ صوفوں پر بیٹھنے سے ان کے بنجر دماغوں میں افلاطون کی روح حلول کر جائے گی۔ جس گھر میں ان کے قدم پڑنے ہوں وہاں کی آرائشِ حسن پر عوامی خزانہ لٹانا یہ اپنا حق سمجھتے ہیں، گویا یہ کسی مہم جو فاتح کی طرح جامعہ کو مالِ غنیمت سمجھ کر لوٹنے آئے ہیں۔
ہارورڈ کا وائس چانسلر شاید اپنی سائیکل پر دفتر پہنچ کر علم کا وقار بڑھاتا ہو، مگر ہمارے بادشاہ سلامت کیلئے آٹھ سے دس گاڑیوں کا وہ شاہی جِلودرکار ہے جو پبلک پرس پر کسی جونک کی طرح چمٹا ہوا ہے۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ جس جامعہ کے ہاسٹلز میں پنکھے نہیں، جہاں کی لیبارٹریوں میں کیمیکل ختم ہو چکے ہیں اور جہاں کا عام طالب علم ٹوٹی ہوئی بسوں کے پائیدانوں پر لٹک کر منزل تلاش کرتا ہے، وہاں کا سلطانِ اعظم بلٹ پروف گاڑیوں کے حصار میں نکلتا ہے تاکہ اس کی علمی ہیبت کا سکہ اہل چمن پر بیٹھا رہے۔
ان خود ساختہ سلطانوں کی نرگسیت کا عالم یہ ہے کہ ان کی پوری سیاست دکھاوے سے شروع ہو کرنمائش پر ختم ہو جاتی ہے۔ ہر سیمینار محض ایک فوٹو سیشن ہے جہاں یہ مغلئی قبائیں پہن کر اس طرح بیٹھتے ہیں جیسے علم کا کل اثاثہ ان کی ذاتِ بابرکات تک محدود ہے۔ اگر ان کی ذات اور دفاتر کے دیدہ و نادیدہ اخراجات کا دیانتداری سے مالی آڈٹ کروایا جائے تو معلوم ہوگا کہ علم و تحقیق کے نام پر آنے والا سرمایہ کس بے رحمی سے ان کی ذاتی انا کی بھٹی میں جھونکا جا رہا ہے۔ ان کے نزدیک تحقیق کا مطلب صرف اپنی تصویر والے رنگین بروشرز چھپوانا ہے، کیونکہ جن ہاتھوں میں چراغِ علم ہونا چاہیے تھا وہاں اب سیلفی اسٹک اور چپراسیوں کی فوج نظر آتی ہے۔
بیوروکریسی کے یہ وژنری وائسرائےجامعات کو کسی علمی کارخانے کے بجائے ایک ایسا قید خانہ بنا چکے ہیں جہاں میرٹ کو وفاداری کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ یہ وہ علمی یتیم ہیں جو کسی لائق فائق پروفیسر کی موجودگی سے اس طرح لرزتے ہیں جیسے چراغ کی موجودگی میں اندھیرا کانپنے لگتا ہے۔ نتیجتاً، اختلافِ رائے رکھنے والے اہل علم کو انتظامی عتاب کے ذریعے دیوار سے لگا دیا جاتا ہے اور جی حضوری کرنے والے خوشامدی ٹولوںکو نوازا جاتا ہے۔
پاکستانی جامعات کی یہ جاگیردارانہ ذہنیت اب ایک قومی کینسر بن چکی ہے۔ جب تک ان شاہانہ مزاجوں کو ان کے اصل مقام یعنی ایک عاجز معلم اور مخلص محقق پر واپس نہیں لایا جائے گا، ہماری جامعات علمی درسگاہیں نہیں بلکہ وہ سفید ہاتھی بنی رہیں گی جو صرف قومی وسائل کو ہڑپ کرنا جانتے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ان قومی بوجھ بنے اداروں کا کڑا احتساب کیا جائے اور ہر اس مقدس گائےکا کچا چٹھا پبلک کیا جائے جس نے تحقیق کا بجٹ اپنے بنگلے کے پورچ اور کچن کی تزئین پر ضائع کیا۔ ہماری جامعات کی ویرانی ان وائس چانسلرز کی شاہانہ نااہلی کا وہ کتبہ ہے جسے مٹانےکیلئے اب مصلحت آمیز الفاظ نہیں بلکہ ایک بے رحم علمی سرجری کی ضرورت ہے۔