• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

واقعہ ستمبر 2022 کا ہے۔ایک برادر ملک کی مورل پولیس گشت ارشادکے کچھ اہلکار مہسا امینی نام کی بائیس سالہ لڑکی سے حجاب نہ کرنے پر الجھ گئے۔مہسانے مزاحمت کی۔اہلکاروں نے اسے حراست میں لے لیا۔ایک ہفتے بعداسے مردہ حالت میں اہلخانہ کے حوالے کردیا۔پولیس نےبتایا کہ اسے ہارٹ اٹیک ہواہے،مگرایک ڈاکٹر کی خفیہ ریکارڈنگ سے معلوم ہوا کہ یہ ہلاکت تشدد سےدماغ پر آنے والی چوٹ کی وجہ سے ہوئی ہے۔خبر آتے ہی عورتوں کی طرف سے مزاحمت کی ایک لہرپھوٹ پڑی۔اپنےآنچل کو انہوں نےمزاحمت کاعلم بنادیا۔ملک بھرمیں ’’برائے زن زندگی آزادی‘‘کے نعرے گونجنے لگے۔عورتیں مختلف انداز میں احتجاج ریکارڈکروانے لگیں۔نسوانی حسن کوخودسراہنے لگیں اور کیمرے پر آکر اسکااظہار بھی کرنے لگیں۔یہ سب انیسویں صدی میں ریاستی جبرکا شکارہونے والی اسی ملک کی ایک شاعرہ اور مفکرہ قرۃ العین طاہرہ کی یاد دلارہی تھیں۔ وہ سمجھتی تھیں کہ حُسن عیب نہیں ہےجواسے ڈھانپ دیا جائے۔حسن کوئی جرم نہیں ہے جو اسکے اظہار پرسزا دی جائے۔حسن کاحق ہے کہ اسکوسراہا جائے۔ اسکااعتراف کیا جائے۔مہاسا کے معاملے پرپاکستان میں بھی تندوتیز مباحثوں کے سلسلے چل نکلے۔دوصفیں بن گئیں۔ایک طرف روشن فکردانشور تھےاور دوسری طرف قدامت پسند سوچ رکھنے والے لکھاری تھے۔ روشن فکرطبقے نے لگی لپٹی رکھے بغیرمورل پولیسنگ کی مذمت کی اور پیشوائیت پرحرف بھیجے۔انکی دلیل بھی بہت واضح اوردوٹوک تھی۔انکا کہنا تھا، ذاتی زندگی کے حوالے سے فیصلے کا اختیار فرد کے پاس ہوتا ہے۔فرد نے کیا پہننا ہے اور کیا نہیں پہننا، یہ فیصلہ کوئی دوسرا شہری کرسکتا ہے نہ ریاست کرسکتی ہے۔ریاست کی ذمہ داری تو بلکہ یہ بنتی ہے کہ وہ فرد کی مرضی اور اختیار کو تحفظ فراہم کرے۔ قدامت پسندوں کا نقطہ نظراس معاملے میں مبہم تھا۔ مبہم بھی شایدچھوٹالفظ ہو۔ اس موقع پربنیادی مدعے کی طرف آنے کی بجائے انہوں نے حجاب کی فضیلت بیان کرنا شروع کردی۔ ان کیلئے اہم مسئلہ یہ نہیں تھا کہ ریاست نے ایک شہری کے ذاتی دائرے میں مداخلت کی ہے۔ ان کیلئے اہم مسئلہ یہ تھا کہ خودمہسا نے بھی توخدا کےحکم کی خلاف ورزی کی ہے۔وہ اس شرط پر مہسا امینی کی ہلاکت کی مذمت کرنا چاہتے تھے کہ مذمت صرف ہلاکت اور تشدد کی حد تک ہی رہے۔ ریاست کے اختیار پر کوئی سوال نہ اٹھایا جائے،اوریہ تو ہر گز نہ کہا جائے کہ حجاب نہ کرنا مہسا کا انسانی حق تھا۔مباحثے کی یہ دھول ابھی پاکستان میں بیٹھی نہیں تھی کہ انڈیا کے شہرکرناٹک میں مسکان خان نامی ایک طالبہ کی اسکوٹی کو ایک انتہا پسند ہندو تنظیم کے کچھ لڑکوں نے کالج کےدروازے پرروک لیا۔کہا،کالج میں داخل ہونےسے پہلے تمہیں نقاب اتارنا پڑے گا۔ ہتھیار ڈالنے کی بجائے مسکان نقاب کے ساتھ ہی کالج میں داخل ہوگئی۔وڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہےکہ اوباش لڑکوں نے کالج میں گھس کر مسکان کا گہراؤ کیا، مگروہ جرات کے ساتھ ہلڑبازی کا جواب االلّٰہ اکبر کے نعروں کے ساتھ دیتی ہوئی کلاس روم کی طرف بڑھ گئی۔ یہ معاملہ انڈیا کے سوشل میڈیا ٹرینڈ پرآگیا۔معاملے کو انسانی بنیادوں پردیکھنے والے لوگ مذہب اور عقیدے سے بالاتر ہوکرمسکان خان کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ کرناٹک کی کئی ہندو عورتوں نے کچھ دیر کیلئے نقاب اوڑھ کر مسکان خان سے یکجہتی کا اظہار کیا۔مسکان خان کا معاملہ جب پاکستان پہنچا تومہسا کےمعاملے پر پہلے سے چلتے ہوئے بحث مباحثے نے 180 ڈگری پر پلٹا کھا لیا۔جیسے لیفٹ آرم بیٹسمین کے آنے پر کبھی بالراپنی سائیڈ چینج کرلیتا ہے،مسکان کےسامنے آنے پرلکھاریوں نے اپنی سمت تبدیل کرلی۔جو مہسا کے معاملے میں الفاظ چبارہے تھے،انکا موقف مسکان کے معاملے پر دوٹوک ہوگیا۔جو مہسا کے معاملے پر بے لاگ موقف رکھتے تھے،وہ مسکان کے معاملے میں چونکہ اور چنانچہ کا شکار ہوگئے۔قدامت پسند حلقے ہیومن رائٹس کے چارٹر کھول کر بیٹھ گئے۔ نقاب کو انہوں نےمسکان کا پیدائشی آئینی اورقانونی حق قراردیدیا۔روشن فکردوست فردکے اختیارپربحث کرنے کی بجائے نقاب کےسماجی اورنفسیاتی اثرات پرلیکچردینے بیٹھ گئے۔ یہ ساری الٹ پلٹ مہسا امینی اور مسکان کے بیچ ایک بے بنیاد سے فرق کی وجہ سے ہوئی۔ مہسا کوحجاب کروانے کی کوشش کی گئی تھی اور مسکان کا حجاب اتارنے کی کوشش کی گئی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ مسکان اور مہسا کے بیچ ایک گہری مماثلت موجود تھی۔ دونوں سے فیصلے کا اختیار چھیننے کی کوشش کی گئی تھی۔یہ معاملہ حجاب لینے نہ لینے کا نہیں تھا۔ معاملہ ریاستی جبرکا تھا۔ معاملہ حجاب کا تب ہوتا جب عام حالات میں یہ سوال سامنے رکھا جاتا کہ حجاب کی کیا حیثیت ہے۔اس سوال کے جواب میں حجاب اور عورت کی شناخت پر بھرپور بحث کی جاسکتی ہے۔لیکن جب سوال شہری آزادی اور ریاست کے اختیار کا ہو تو پھرحجاب کی فضیلت یا اسکی سماجی حیثیت پر بات کرنے کا سادہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ جبر کی تائید کررہے ہیں۔ مہسا اورمسکان والی یہ کہانی بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی ایک بیہودہ حرکت کی وجہ سے یاد آئی۔ایک سرکاری تقریب میں اپوائنمنٹ لیٹر تھماتے ہوئے انہوں نے ایک مسلم خاتون ڈاکٹر کاحجاب کھینچ لیا۔معاملہ یہاں نہیں رکا۔اگلےدن ایک صحافی کو جواب دیتے ہوئے وزیراعلیٰ نے مکروہ سی ہنسی ہنستے ہوئےکہا، ہر بات کے پیچھے نہیں پڑجاناچاہیے۔ میں نے توصرف نقاب کوہاتھ لگایا تھا۔کہیں اورہاتھ لگالیا ہوتا توپھرپتہ نہیں کیاہوتا۔وزیر اعلیٰ کی بات کاسرپیرنہیں تھا،مگر یہ بات انکے دماغی خلل کوظاہر کرنے کیلئے بہت کافی تھی۔ سیاسی اور سماجی شعور رکھنے والے حلقوں نے انڈیا میں اس واقعے پر بھرپور ردعمل دیا ہے۔ دینا بھی چاہیے۔اس واقعے میں تحقیربھی ہے،ہراسگی بھی ہے،مداخلت بھی ہے اور اپنی جہالت پر اصرار بھی ہے۔حیران ہوں کہ اس سب کے باوجودیہ معاملہ کسی بحث کا رزق بننے کیلئے پاکستان میں داخل کیوں نہیں ہوسکا؟ اگر کوئی وزیراعلیٰ کسی طالبہ کوسند دیتے ہوئے اتنا کہہ دیتا تم نقاب کیوں نہیں لیتی،توکیاتب بھی ہمارے ہاں معاملہ اتنی ہی خاموشی سے گزرجاتا جتنی خاموشی سے نقاب والی ڈاکٹر کا گزر گیا ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ہم شاید انسانی حقوق کی جنگ لڑتے ہی نہیں ہیں۔ہم صرف انا کی جنگ لڑتے ہیں۔ ہم نقاب کی بات کرتے ہیں۔ ہم اپنے چہروں پر پڑے دوہرے نقاب کی بات کیوں نہیں کرتے۔

تازہ ترین