انسانی تاریخ کی کتاب کھولیں تو پہلا سبق یہی ملتا ہے کہ خوف ہمیشہ سے طاقت کا سب سے کارگر ہتھیار رہا ہے۔ قدیم روم کے میدان ہوں یا قرونِ وسطیٰ کے صلیبی قافلے تشدد نے ہر دور میں اپنے لیے اخلاقی جواز تراش لیا۔انیسویں صدی میں جب قوم پرستی نے نئی کروٹ لی تو بدقسمتی سے سیاسی قتل ایک نظریہ بن کر ابھرا۔ روسی زار کے خلاف بم اچھالنے والے انقلابی ہوں یا یورپ کے خفیہ گروہ سب خود کو نجات دہندہ سمجھتے رہے۔ بیسویں صدی میں دو عالمی جنگوں نے تشدد کو اجتماعی تقدیر بنا دیا۔ ہیروشیما اور ناگاساکی نے یہ واضح کر دیا کہ دہشت صرف غیر ریاستی عمل نہیں بلکہ ریاستیں بھی اسے پوری مہارت سے برتتی رہی ہیں۔ سرد جنگ کے زمانے میں دنیا نظریاتی خندقوں میں تقسیم ہو گئی۔ ویت نام سے افغانستان تک پراکسی جنگیں لڑی گئیں اور یوں کہیے کہ تشدد ایک منظم عالمی رسم ورواج یازبان بن گیا۔
پھر ایک دن نیویارک کے آسمان سے مینار گرے۔ نائن الیون نے دہشت گردی کو عالمی لغت کا مرکزی لفظ بنا دیا۔ دنیا نے پہلی بار خوف کو براہِ راست اسکرین پر دیکھا۔ اس کے بعد بغداد، لندن، میڈرڈ اور ممبئی و کراچی جیسے شہر بھی محفوظ نہ رہے ۔ دہشت گردی کے یہ زخم گویا پھیلتے چلے گئے۔ دہشت گردی نے کبھی مذہب اوڑھا، کبھی سیاست کا سہارا لیا اورکبھی نفسیاتی شکست کو بیانیہ بنا لیا۔ کہیں سفید فام برتری کا جنون ابھرا، کسی خطے میں مقدس جنگ کا نعرہ بلند ہوا، کہیں قومی شناخت کے نام پر بندوق اٹھائی گئی۔ دلیل ہر جگہ ایک جیسی رہی کہ ہم مظلوم ہیں۔ انجام بھی ایک سا یعنی ہر سو وہی بے گناہوں کی بکھری لاشیں۔ آج دہشت گردی کسی ایک خطے کا مسئلہ نہیں رہی۔ یہ ایک عالمی نفسیاتی بحران بن چکی ہے جو تاریخ، سیاست اور انسانی شکست و ریخت سے جنم لیتا ہے اور ہر نئے ساحل پر ہمیں یہی سوال یاد دلاتا ہےآخر قصوروار کون ہے؟ درحقیقت یہ سوال اب سڈنی کے ساحل تک محدود نہیں رہتا۔ یہ پیرس کی گلیوں، لندن کے پلوں، کابل کی وادیوں اور بغداد کے بازاروں تک پھیل جاتا ہے۔ ہر جگہ منظر بدل جاتا ہے مگر کہانی وہی رہتی ہے۔ کہیں حملہ آور کا نام بدل جاتا ہے، کہیں اس کی زبان، کہیں اس کا نعرہ لیکن بندوق کی گولی ہر جگہ ایک ہی طرح انسان کو گراتی ہے۔یہ بھی عجیب المیہ ہے کہ دہشت گردی کے بعد دنیا کےبڑے ہمیشہ وہی روایتی اورگھسے پٹے سوالات دہراتے ہیں: مذہب کیا تھا؟ نسل کون سی تھی؟ نظریہ کیا تھا؟ جیسے ہم اصل مسئلے سے بچنے کے لیے آسان اور سرد خانوں میں جواب رکھنا چاہتے ہوں۔ حالانکہ اصل مسئلہ ان خانوں سے کہیں زیادہ گہرا ہے۔ یہ اس دنیا کی پیدا کردہ بے معنویت ہے جہاں معلومات کی بہتات ہے لیکن حکمت نایاب ہوتی جا رہی ہے۔
سڈنی کے اس واقعے میں ایک اور پہلو بھی ہے جس پر کم بات ہوتی ہے، خوف کے بعد پھیلنے والی خاموشی۔ وہ خاموشی جو متاثرین کے گھروں میں ہمیشہ ہمیشہ کےلیے سرایت کر جاتی ہے جو بچوں کے سوالوں میں سسکتی ہے، جو اگلے دن بھی ساحل پر موجود رہتی ہے اگرچہ سمندر بدستور لہریں بکھیرتا رہتا ہے۔ تاریخ محض واقعات کا مجموعہ نہیں۔ یادداشت کا تسلسل بھی ہے۔ بلاشبہ جب یادداشت زخموں کو سمجھے بغیر آگے بڑھ جائے تو تہذیب بار بار اسی موڑ پر آ کھڑی ہوتی ہے۔یہاں ریاست کا کردار بھی سوال کے دائرے میں آتا ہے۔ اس ضمن میں قوانین، نگرانی اور کیمرے ضروری ہیں۔یہ اقدام اس حوالے سے کافی نہیں کیونکہ دہشت گردی بندوق سے پہلے ذہن میں جنم لیتی ہے۔اس ذہن میں جو خود کو دنیا سے کٹا ہوا محسوس کرتا ہے، جو ہر اختلاف کو حملہ سمجھتا ہے اور جو اپنے وجود کی توثیق صرف تب محسوس کرتا ہے جب وہ کسی اور کو مٹا دے۔ یہ ذہن صرف پولیس سے نہیں، معاشرتی شمولیت، تعلیم اور مکالمے سے درست ہوسکتا ہے۔
آج کی دنیا میں جہاں ہر خبر چند لمحوں میں پرانی ہو جاتی ہے اصل خطرہ یہ ہے کہ ہم ان واقعات کو بھی بھولنے لگیں۔ دہشت گردی تب سب سے زیادہ کامیاب ہوتی ہے جب وہ ہمیں بے حس بنا دے، جب ہم اگلے سانحے کا انتظار کرنے لگیں اور پچھلے زخم کو سمجھنے کی زحمت نہ کریں۔ سڈنی کا ساحل اقوام عالم کو خبردار کرتا ہے کہ اگر ہم نے یادداشت کو سنجیدگی سے نہ لیا تو تاریخ ہمارے لیے بار بار ایک ہی سبق دہراتی رہے گی ۔خدانخواستہ ہر بار زیادہ خون کے ساتھ۔وقت کی یہی روش ہے کہ وہ روانگی اورتسلسل کےساتھ بہتا رہے گا، سمندر اپنی نیلاہٹ برقرار رکھے گا، شہر دوبارہ آباد ہو جائیں گے۔ اصل سوال باقی رہے گا: کیا ہم نے انسان کو مرکز میں رکھ کر دنیا کو سمجھنے کی کوشش کی یا صرف اپنے اپنے خوف کو مقدس بنا کر آگے بڑھتے رہے؟ اسی سوال کا جواب آنے والی تاریخ لکھے گی۔ شاید ہم حسبِ معمول اس کے حاشیے میں کھڑے ہوں گے۔یہ عہد اگرچہ خوف، عدمِ تحفظ اور بے نام سی وحشت سے گھرا ہوا ہے۔ تاریخ ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ انسان نے ہر تاریک دور میں روشنی کی کوئی نہ کوئی کرن ضرور تلاش کی ہے۔ دہشت گردی کی تازہ لہر بہت خوفناک ہے۔یہ انسان کو خوف کے ذریعے خاموش کرانا چاہتی ہے لیکن ہر وہ لمحہ جب کوئی فرد نفرت کے آگے کھڑا ہو جاتا ہے۔اس سازش کو ناکام بنا دیتا ہے۔ زخم گہرے ہیں، یادیں بوجھل ہیں، مگر زندگی کا اصرار اب بھی زندہ ہے۔ یقینی طورپر یہی اصرار ہمیں یہ یقین دلاتا ہے کہ تشدد عارضی ہے اور انسانیت زخمی ضرور ہے مگر فنا پذیر نہیں۔