بہ ظاہر سیاست میں سب ٹھیک چل رہا ہے، بہ ظاہر حکومت کو کسی عظیم بحران کا سامنا نہیں ہے، بہ ظاہر راوی ’’تقریباً‘‘ چین لکھ رہا ہے۔ یہ ہے چشم و جبین و عارض و رخسار کا منظر۔ اب ذرا سیاست کے سینے سے کان لگا کر سنیے، کیا ہنڈیا کے کھولنے کی آواز سنائی دے رہی ہے؟ یہ کیا پک رہا ہے؟
ہماری سیاسی تاریخ میں جب بھی کبھی’’مائنس ون‘‘ کی کوشش کی جاتی ہے، سطح پر سکون کی دھند پھیلا دی جاتی ہے اور چین کی بانسری کا ساؤنڈ ٹریک اونچی آواز میں لگا دیا جاتا ہے۔ یہ دھند دراصل سموگ ہے، اس بانسری میں درجنوں چھید ہیں۔ ہم نے عمران خان کی حکومت میں یہ سموگ دیکھ رکھی ہے، جب نواز شریف جیل میں تھے، شہباز شریف اور مریم نواز جیل میں تھے، آصف زرداری جیل میں تھے۔ اور سب’’ٹھیک ٹھاک‘‘چل رہا تھا۔ سڑکیں آج کی طرح سنسان تھیں، میڈیا کی مشکیں کس دی گئیں تھیں، ثاقب نثار گینگ واردات پر واردات کر رہا تھا، اور فیض حمید مسکرا رہے تھے، اور اُس بندوبست کو دہائیوں تک چلانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ راوی چین لکھ رہا تھا۔ پھر جو ہوا وہ ہمارے سامنے ہوا۔ جمہوریت کی جڑیں زمین میں ہوتی ہیں،’’بندوبست‘‘گملے میں اُگائے جاتے ہیں، اور گملے کا ٹوٹ جانا کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا کرتا۔ ایسے کئی گملے ہم نے ستر سال میں ٹوٹتے دیکھے ہیں۔
بات یہ ہو رہی تھی کہ مائنس ون سطح کو پُرسکون کر دیتا ہے، مگر داخل مضطرب رہتا ہے۔ داخل کو پُرسکون کرنے کیلئے ریاست کے شہریوں کو سیاسی نظام میں شراکت داری کا احساس رہنا چاہیے۔ جب کہ ’’مائنس ون‘‘کی حکمتِ عملی عوام سے یہ احساس چھین لیتی ہے، پہلے بھی یہ ہوتا رہا ہے آج بھی ہو رہا ہے۔ یہ جو سوچ ہے کہ موجودہ بندوبست’’دائمی‘‘ ہے، کئی ملکوں کی مثالیں دی جاتی ہیں جو سنگینوں کے سائے میں دہائیوں سے چل رہے ہیں، اور ہم بھی ایسے ہی چلتے رہیں گے، یہ سوچ پاکستان کی تاریخ سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے، یہ قوم کی اجتماعی نفسیات سے نابلد ہونے کا شاخسانہ ہے۔ پاکستان کسی گوریلا جنگ کا ثمر تو نہیں ہے۔ ایوب خان سے پرویز مشرف تک، اور اس کے بعد بھی ملک کو تیغ و تبر سے چلانے کی کئی کوششیں کی گئیں، سب ناکام ہوئیں۔ یہ پاکستان کا ڈی این اے ہے۔ اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مائنس ون کی کوششوں سے کچھ نہیں ہوتا، بس قوم کا وقت ضائع ہوتا ہے، جب بھی انتخابات ہوتے ہیں، جذباتی ووٹنگ ہوتی ہے، لہٰذا الیکشن چُرانے پڑتے ہیں، ملک سیمنٹ کے جوتے پہن کر وہیں کا وہیں کھڑا رہتا ہے۔ اب موجودہ صورتِ حال میں کیا کیا جائے؟
عمران خان کے سیاسی رویے قابلِ رشک نہیں رہے، اب بھی نہیں ہیں۔ ان کے درجنوں سیاسی فیصلے ناقابلِ دفاع ہیں، نو مئی سے آج تک، ان کی ذہنی حالت میں تبدیلی کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، سیاست دانوں کو غالباً آج بھی وہ’’چور ڈاکو‘‘ کے لقب سے ہی یاد کرتے ہوں گے۔ ان’’چور ڈاکوؤں‘‘ کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ عمران خان کو دوبارہ سیاسی عمل کا حصہ بنانے کی کسی کوشش کا حصہ بنیں۔ تو پھر اب کیا کریں؟ بہ ظاہر کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ اس اندھیرے میں اگر کوئی درز کُھل سکتی ہے تو وہ صرف مذاکرات سے کھل سکتی ہے۔ سیاست دانوں کو سمجھنا ہو گا کہ مسئلہ عمران خان نہیں، پاکستان کا سیاسی استحکام ہے، یہ وہ کشتی ہے جس میں سب سیاست دان سوار ہیں، حکومت اور اپوزیشن دونوں۔ حکومت کا یہ دعویٰ کسی حد تک درست ہے کہ ہم نے پہلے بھی مذاکرات کی کوشش کی تھی جو عمران خان کے غیر سیاسی رویے نے ناکام بنا دی تھی۔ دوبارہ کوشش کرنے میں کیا حرج ہے؟ بہت ماہ گزر گئے، اب عمران خان کیا سوچ رہے ہیں؟ جیل میں بند سیاست دانوں کے بیانات اپنے حامیوں کو یہ بتانے کیلئے ہوتے ہیں کہ ان کا لیڈر ٹوٹا نہیں، ڈٹا ہوا ہے۔ سنجیدہ مذاکرات ایک یک سر مختلف معاملہ ہے۔ یہ بات چیت صرف اعلیٰ ترین سطح پر ہو سکتی ہے۔
اپوزیشن کے سیمینار میں محمود خان اچکزئی کہتے ہیں اس سیاسی گتھی کو سلجھانے میں’’نواز شریف اپنا کردار ادا کریں‘‘۔ خواجہ محمد رفیق شہید کی برسی پر خواجہ سعد رفیق بھی یہی کہہ رہے تھے۔ اس بارے میں اب دو رائے نہیں پائی جاتیں کہ نواز شریف اس وقت ملک کے سب سے سینئر اور محترم سیاستدان ہیں۔ مگر کچھ عرصے سے وہ سیاست سے لاتعلق نظر آتے ہیں۔ شاید بے مزا ہو گئے ہیں۔ اپنی عمر بھر کی سیاست کا گوشوارہ نکالتے ہوں گے تو شاید دل گرفتہ ہوتے ہوں۔ تین بار حکومت سے نکالے گئے، جیلیں کاٹیں، جلاوطنیاں بھگتیں، اور بدلے میں سال ہا سال ریاستی اداروں نے ان کی کردار کُشی کی، میڈیا کا نرخرہ پکڑ کر’’چور ڈاکو‘‘کی گردان کروائی گئی، کبھی عدالتوں میں رسوا کیا گیا، کبھی مودی کا یار قرار دیا گیا۔
موزوں تھا کہ ریاستی سطح پر میاں صاحب سے معافی مانگی جاتی۔ بہرحال، اس وقت حالات یہ ہیں کہ ہمارا مسئلہ اس وقت سیاست ہی نہیں، ریاست بھی ہے۔ میاں صاحب وہ واحد آدمی ہیں جن کی بات سب فریق غور سے سُنیں گے، محسن داوڑ سے اختر مینگل تک، اور جماعت اسلامی سے ایم کیو ایم تک۔ ادارے بھی اس تصادم سے نکلنا چاہتے ہیں، ان کے لیے بھی یہ کوئی خوش کُن صورتِ حال نہیں ہے، مگر انہیں رستہ نہیں نظر آ رہا۔ میاں صاحب نے 2013 میں بلوچستان میں ایک نیشنلسٹ کو وزیرِاعلیٰ بنایا تھا، اور عمران خان کو کے پی میں حکومت بنانے دی تھی۔ اسے جمہوری دانش مندی کہتے ہیں۔ میاں صاحب اعلیٰ ظرف انسان ہیں، بے نظیر کی شہادت سے عمران خان کے زخمی ہونے تک، کئی مواقع پر ان کا رویہ مثالی رہا ہے۔میاں صاحب، آپ نے سویلین بالا دستی اور جمہوریت کے استحکام کیلئے کئی’’گناہ‘‘کیے ہیں...ایک گُناہ اور سہی۔