قائداعظم محمد علی جناح ؒسے میری عقیدت محض اتفاقی یاروایتی نہیں، چالیس سال کی عمر میں جب میں نے اپنے ان دیکھے والد، جو محض انتالیس سال کی عمر میں اس وقت فضائی حادثے کا شکار ہو گئے تھے جب میں صرف دو ماہ کا تھا، کے متعلق تحقیق کر رہا تھا تو میں نے ملنے والے شواہد کی روشنی میں اندازہ لگایا کہ انہیں قائدِ اعظم محمد علی جناح سے غیر معمولی محبت و عقیدت تھی۔ اس عقیدت میں انہوں نے اپنے کاروبار اور مالی نقصانات کو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے قائد کی بھرپور پیروی کی۔رفیع بٹ جو اس وقت مسلمانوں میں ایک نمایاں شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے،جنکے اس وقت کے تمام بڑے،با اثر اور مقتدر لوگوں سے تعلقات تھے اگر وہ قائد کیلئےاتنی محبت رکھتےتھے تو ضرور قائد میں کچھ بات تھی۔اس تجسس نے مجھے اپنے والد کے متعلق تحقیق کے ساتھ ساتھ قائدِ اعظم کی زندگی اور حالات و واقعات کو پرکھنے کی راہ دکھائی۔جب ہمیں نیشنل آرکائیوز سے قائد اور رفیع بٹ کے مابین ہونے والی خط و کتابت کے سراغ ملے تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ قائد جیسے عظیم رہنما میں شفقت، دوسرے کیلئے احترام اور دوسروں کی رائے کو اہمیت دینے کاکتنا حوصلہ اور ظرف موجود تھا۔جب میں نے اپنے والد کے متعلق تحقیق کے حوالے سے تحریکِ پاکستان کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنے والے لوگوں کے انٹرویوز کا سلسلہ شروع کیا تو میں یہ دیکھ کر حیران ہو جاتا کہ اکثر لوگ قائد اور رفیع بٹ کی باتیں کرتے ہوئے رو دیتے،یہ جہاں ان دونوں شخصیات کی محبت اور اپنائیت کی دلیل تھی وہیں تحریکِ پاکستان میں شامل ان کارکنان کے خلوص کی عکاسی تھی کہ وہ اپنے محبوب قائد سے کس قدر عقیدت و محبت رکھتے تھے۔کبھی کسی ایک فرد سے بھی قائد کے متعلق کوئی ایسی بات سننے کو نہ ملی جس سے انکی شخصیت کے کسی بھی کمزور پہلو کا تاثر ابھرتا ہو۔ قائد اعظم ؒ جیسے بے دھڑک اور موقف پر ڈٹ جانے والے رہنما پر اندھا یقین جہاں مسلمانوں کی وحدت و یگانگت اور مسلم لیگ کی طاقت کا اصل سرچشمہ تھا۔وہیں قائد کے نظریات، اپنی قوم کیلئے جذبات اور غیر متزلزل اخلاص نے انہیں اپنوں سمیت غیروں کا بھی محبوب بنا دیا تھا ۔قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے عظیم ترین مشن کیلئے اپنی خانگی زندگی تک کی قربانی دینے سے دریغ نہ کیا،رتی جناح کے بستر علالت پر ان کے بہائے گئے آنسو یہ ثابت کرنے کیلئے کافی تھے کہ ایک مضبوط ترین قائدِ کتنے نرم دل اور حساس تھے۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح سے محبت رکھنے والے ایک شخص نے اپنے کاروبار کو قائد کے نام سے معنون کیا اور اس حوالے سے انہیں باقاعدہ خط لکھ کر آگاہ کیا تو قائد نے اپنے اصولوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے جوابی خط تحریر فرما کر ان صاحب کی محبت اور عزت افزائی کا شکریہ ادا کیا لیکن ساتھ ہی انہیں اپنے نام سے کاروبار نہ کرنے کا حکم بھی جاری کیا تاکہ لوگ اس حوالے سے کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔ بہت سے لوگ انہیں قیمتی تحائف بھی پیش کرتے لیکن قائد انتہائی وضعداری اور سلیقے سے ان تحائف کو قبول کرنے سے اس انداز میں معذرت کرتے کہ کسی کی دل آزاری بھی نہ ہو۔تاہم ایک بار رفیع بٹ بیرون ملک ایک تجارتی دورے سے واپس تشریف لائے تو انہوں نے قائدِ اعظم اور محترمہ فاطمہ جناح کے لیے کچھ تحائف بھجوائے۔ حیران کن طور پر نہ صرف قائد نے ان تحائف کو قبول فرمایا بلکہ رفیع بٹ کوباقاعدہ خط لکھ کر ان تحائف پر اپنی اور محترمہ فاطمہ جناح کی طرف سے شکریہ بھی ادا کیا۔قائد اور رفیع بٹ کے مابین آرکائیوز سے ملنے والی خط و کتابت سے یہ حیران کن نقطہ بھی دیکھنے کوملا کہ عمر کے واضح فرق کے باوجود مختلف امور پر دی گئی رفیع بٹ کی رائے اور تجاویز کو قائدِ اعظم نےنہ صرف بھرپور سراہا بلکہ ان پر عمل پیرا ہونے کا بھی عندیہ دیا۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح آخری ایام میں جب شدید بیمار ہوئے تو انہیں زیارت سے کراچی لایا گیا جہاں ائیر پورٹ پر ان کے اے ڈی سی نے انہیں مطلع فرمایا کہ آپ کی صاحبزادی آپ سے ملنے کی خواہشمند ہیں۔ دینا جناح جو قائد کی حکم عدولی کی مرتکب ہو کر دینا واڈیا بن چکی تھیں قائد جیسے اصول پسند باپ کو دمِ آخر بھی پگھلانے میں ناکام رہیں اور قائد نے اپنے اے ڈی سی کو یہ کہہ کر لاجواب کر دیا کہ میری کوئی بیٹی نہیں ہے۔قائداعظم محمد علی جناح کی شخصیت کا کرشماتی پن نہ صرف ان کی شخصیت کے اوصاف کے باعث تھا بلکہ ان کی نفاست و حسنِ انتخاب کا بھی داعی تھا۔پہناوے کھانے پینے حلقہءِ احباب حتیٰ کہ گفتگو میں لفظوں کے انتخاب تک میں وہ انتہائی محتاط اور خوش انتخاب واقع ہوئے تھے۔ یہی خصوصیات انہیں دوسروں سے ممتاز اور ہر دلعزیز بناتی گئیں۔ قائد جنہوں نے مسلمانوں کو ایک محفوظ، مواقع سے بھرپور اور جداگانہ شناخت کا حامل ملک دلوانے کے لیے اپنی زندگی وقف کر ڈالی، کاش انہیں اس ملک کی بنیادیں مستحکم کرنے کا بھی موقع میسر آ پاتا تو آج حالات قدرے مختلف ہوتے۔
ہم ہر سال قائد ڈے منا تو لیتے ہیں لیکن قائد جیسے عظیم المرتبت رہنما سے رہنمائی لینے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لیتے۔ہمیں قائد کو قائد ڈے تک ہی رہنما نہیں ماننا چاہیے،ہر جگہ ان کی تصاویرآویزاں کرنا بھی ایک احسن عمل ہے تاہم اس کی بجائے ہمیں ان کے نظریات سے استفادہ کرنا چاہیے۔
(مصنف جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)