ایک سال پہلے تک اکثر مبصرین کاخیال تھا کہ عراق ایک متحد ملک کے طور پر قائم رہے گا لیکن آج وہ عملاً تین حصوں میں منقسم ہے۔ عراق کے چالیس فیصد رقبے پر الدولۃ السلامیہ فی عراق و شام (ISIS) قابض ہے۔ اس کے سربراہ ابوبکرالبغدادی نے اپنے مفتوحہ علاقوں میں نظام خلافت قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ 20 فیصد رقبہ کردوں کے پاس ہے۔ 30 فیصد رقبے پر عراقی حکومت قابض ہے جبکہ 10 فیصد غیرآباد صحرا ہے۔
عراقی حکومت کے پاس ڈھائی لاکھ افراد پر مشتمل باقاعدہ فوج ہے۔ اعلیٰ سطح کے امریکی مشیر، طیارے، ٹینک اور دیگر اسلحہ سمیت اس کے پاس وہ سب کچھ موجودہ ہے جو ایک مستقل فوج کے پاس ہونا چاہئے جبکہISIS کی کل نفری آٹھ ہزار ہے لیکن اس کے باوجود موصل اور تکریت انقلابیوں کے اس طرح حوالے کردیئے گئے جیسے برتھ ڈے کیک۔ واضح طور پر انقلابیوں کے مقابل پسپائی کا حکم اعلیٰ قیادت کی طرف سے دیا گیا تھا۔ حیرت انگیز طور پر فوج کو متحرک کرنے اور جوابی حملہ کرنے کے بجائے المالکی نے عوامی جنگجوئوں کو جمع ہونے کاحکم دیا۔ تکریت، فلوجہ اور رمادی جیسے مرکزی شہروں پر ISIS قابض ہے۔ انقلابیوں کی بڑھتی ہوئی پیشرفت کی موثر مزاحمت کرنے کے بجائے دیالی بلکہ بغداد کے قریب جنگ اس طرح لڑی گئی جیسے آنکھ مچولی۔ بیجی میں سب سے بڑی آئل ریفائنری پر راکٹ لانچروں اور جہازوں سے حملے پھر تلفر میں جھڑپیں۔ سب کچھ اتنے مختصر وقت میں اور ایسا نپا تلا ہے جیسے متحارب فریقین کے درمیان سب کچھ پہلے سے طے شدہ ہو پھر ان واقعات کی حقیقت تک رسائی جنہوں نے عراق اور مشرق وسطیٰ کو ہلاکر رکھ دیا ہر ممکن طریقہ اختیار کیا گیا کہ کسی کو اصل جواب نہ مل سکے بلکہ اسے فرقوں کی باہم لڑائی، جھگڑا دشمنی انتقام اور خون خرابہ قرار دیا جائے۔ سیاسی رہنماؤں عمائدین حکومت اور مذہبی شخصیات کی جانب سے ایک تواتر کے ساتھ تضادات کو ہوا دیتے بیانات آنا شروع ہو گئے۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے بھی حقائق کا کھوج لگانے کے بجائے اسے فرقوں کی نفرت انگیز کارروائیاں قرار دیا۔ جس کی تکرار اور مسلسل تکرار سے نفرت کا طوفان پیدا کر دیا گیا۔ حالانکہ یہ لوگ خطے میں امریکہ کی آمد تک ایک ہزار برس سے بھائیوں کی طرح رہتے آئے ہیں مغربی میڈیا کی سرخیاں ملاحظہ فرمائیے:’’انتہا پسندوں کا موصل پر کنٹرول‘‘’’جہادیوں نے عراق پر قبضہ جمالیا‘‘ ۔
ISIS سے وابستہ انقلابی شام، عراق، لبنان، اردن یا فلسطین کے لئے برطانیہ اور فرانس کی متعین کردہ سرحدوں کی پروا نہیں کرتے اور انہیں مٹانے کے درپے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کی پرانی تقسیم ختم ہو گئی ہے پھر ISIS نے خلافت کے قیام کااعلان بھی کردیا۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمے پر لارڈ کرزن نے کہا تھا کہ ’’ترکی اب کبھی اپنی عظمت رفتہ کو بحال نہیں کر سکتا کیونکہ ہم نے اس کی روحانی طاقت خلافت کو تباہ کر دیا ہے‘‘۔ مغرب اور امریکہ خلافت کے قیام کو مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کی مزاحمت میں اتنے حساس اور فعال ہیں کہ حزب التحریر جیسی پرامن جماعت کو بھی برداشت نہیں کرتے جو کہیں بھی عسکری جدوجہد میں ملوث نہیں لیکن ISIS کے خلافت کے قیام کے اعلان کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیا گیا۔عالمی امور کے تحقیقی ادارے بروکنگز کے ایک ممتاز تجزیہ کار کا کہنا ہے ’’ISIS کی جانب سے خلافت کے قیام کا اعلان امریکہ میں ستمبر گیارہ کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد کی سب سے اہم جہادی پیشرفت ہے‘‘۔ یہ عجیب سی بات لگتی ہے کہ عالمی سطح پر ان عظیم تبدیلیوں کا ردعمل بہت سرسری، معمولی اور سطحی تھا بعض نے ان واقعات کو شام اور عراق کا مشترکہ بحران قرار دیا کیونکہ ISIS نے شام کے ایک تہائی سے زیادہ رقبے پر قبضہ کر رکھا ہے۔ بعض نے اسے فرقہ وارانہ جنگ قرار دیا اور کہا کہ عراق میں مسلکی خلیج وسیع تر ہوتی جارہی ہے کیونکہ اس معاملے میں المالکی غیر جانبدارانہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ ان لوگوں کے تبصرے ہیں جو بہت کچھ سمجھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کچھ چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے غالباً یہ کہ سب کچھ پہلے سے طے تھا یا پہلے سے علم میں تھا۔ یہ سب کچھ معمہ نہیں اگر 13جون 2014ء کو صدر اوباما کے اس بیان کو سامنے رکھا جائے کہ ’’اگر عراق سے تیل کی سپلائی متاثر بھی ہوتی ہے تو خلیجی ریاستوں کے تیل کے ذخائر سے تیل کی سپلائی جاری رکھی جائے گی‘‘۔ صاف پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کو اس پیشرفت کا علم تھا اور اس سے نمٹنے کے لئے اس نے انتظام بھی کررکھا تھا۔ پھر صدر اوباما کا یہ بیان کہ ’’عراقیوں کی جانب سے کوئی سیاسی منصوبہ پیش کئے بغیر واشنگٹن کسی فوجی کارروائی میں شریک نہیں ہو گا‘‘۔ حالانکہ عراق اور امریکہ کے درمیان سیکورٹی معاہدہ موجود ہے جنرل ڈیمپسی کا کہنا تھا کہ امریکہ کو مداخلت کی جلدی نہیں ہے بلکہ وہ اس کو التواء میں ڈال رہا ہے تاکہ دوسرے اہداف حاصل کرسکے۔ گویا عراق میں قیام امن ہرگز امریکہ کی ترجیح نہیں۔
امریکہ سازش تخلیق کرتا ہے اور پھر طویل عرصے تک اس کی پرورش کرتا ہے عراق کے خلاف سازش کا آغاز عراق پر قبضہ سے بھی پہلے اس وقت سے ہوتا ہے جب امریکہ نے1991ء میں شمالی عراق میں نوفلائی زون قائم کیا تھا۔ جس سے کردستان ایک الگ ملک کی حیثیت اختیار کرگیا تھا۔ عراق پر قبضہ کے بعد عراق کو ایک ایسا ائین دیا گیا جس میں فرقہ واریت کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی اور مئی 2006ء سے نوری المالکی کو حکومت سونپ کر اس بات کی کھلی چھٹی دے دی گئی کہ وہ چنگاریوں کو شعلوں میں تبدیل کرے۔ المالکی کی تشکیل کردہ مسلح ملیشیا کا وجود صورت حال کو اور زیادہ سنگین بنادیتا ہے۔ISIS کو المالکی کی حکومت کی ایک دوسری انتہا کے طور پر پیش کیا جارہا ہے اور ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہ انتقام پر یقین رکھتی ہے جس کی عسکری مہارت کا یہ حال ہے کہ اس نے عراقی فوجوں کو روند کر رکھ دیا ہے حالانکہ جو عسکری گروہ موصل اور تکریت میں داخل ہوئےISIS ان میں سے ایک تھی۔ عراق کو اس طرح کی جنگ میں جھونک کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کیا جارہا ہے اور اب وہ دن دور نہیں لگتا جب عراق کی چھوٹی چھوٹی ریاستیں مقتل بنادی جائیں گی اور عراق کے باشندے مستقبل میں زیادہ بدتر حالت میں امریکہ کے رحم و کرم پر ہوں گی۔ جب کہ عراق کے باشندے اس عظیم مذہب اسلام کا حصہ ہیں جس کی رسی مضبوطی سے تھامنے میں ہی سب کی بقا ہے۔